صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
105. بَابُ تَحْرِيمِ التِّجَارَةِ فِي الْخَمْرِ:
باب: شراب کی تجارت کرنا حرام ہے۔
وَقَالَ جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: حَرَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ.
‏‏‏‏ اور جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کا بیچنا حرام فرما دیا ہے۔
حدیث نمبر: 2226
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، لَمَّا نَزَلَتْ آيَاتُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ عَنْ آخِرِهَا، خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" حُرِّمَتِ التِّجَارَةُ فِي الْخَمْرِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوضحی نے، ان سے مسروق نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سورۃ البقرہ کی تمام آیتیں نازل ہو چکیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ شراب کی سوداگری حرام قرار دی گئی ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4543  
´اگر مقروض تنگ دست ہے تو اس کے لیے آسانی مہیا ہونے تک مہلت دینا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" لَمَّا أُنْزِلَتِ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُنَّ عَلَيْنَا، ثُمَّ حَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سورۃ البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں پڑھ کر سنایا پھر شراب کی تجارت حرام کر دی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4543]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4543کا باب: «بَابُ: {وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ}، {وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
بظاہر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ظاہر نہیں ہو رہی ہے، کیونکہ ترجمۃ الباب کا تعلق قرضے سے ہے اور حدیث کا تعلق تجارت خمر سے ہے، چنانچہ اسماعیلی نے یہ اعتراض کیا کہ:
«لا وجه للدخول هذه الاية فى هذا الباب.» [عمدة القاري للعيني: 188/18]
روایت باب اور ترجمتہ الباب میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔
کیونکہ آیت مبارکہ کا تعلق تو قرضے سے ہے اور روایت ربا اور تجارت خمر کی حرمت کے ساتھ ہے۔
لیکن غور کیا جائے تو یہاں پر مناسبت ترجمۃ الباب اور حدیث کی واضح طریقوں سے موجود ہے،
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
حرمت ربا کے اعلان کے ساتھ شراب کی تجارت کی حرمت کا اعلان اس کی قباحت اور شدت حرمت کو ظاہر کرنے کے واسطے ہے، کیونکہ شدت حرمت اور قباحت ایک دوسرے کے قریب ہیں، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت جو لوگ وہاں حاضر ہوں آپ نے ان میں کچھ ایسے لوگ محسوس کئے ہوں جن کو تجارت خمر کا علم نہ ہوا ہو اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ فرمایا۔

اس کے علاوہ مناسبت کا پہلو یہ بھی ہے کہ:
آیت باب میں مقروض کو مہلت اور اس پر صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، جبکہ یہ اصل مال ہے اور اس مال کو واپس لینا قرض دینے والے کا حق بھی ہے، لیکن اس کے باوجود اصل مال جسے ہم راس المال کہیں گے اسے معاف کرنے اور صدقہ کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے، لہٰذا سود تو اصل مال سے اضافی ہوتا ہے تو جب اصل مال معاف کرنے کی ترغیب ہے تو سود جو کہ اصل مال پر زیادتی ہے وہ کس طرح سے درست ہو گا؟ لہٰذا اب مناسبت کا پہلو یہ ہے کہ مذکورہ آیت سے سود کی حرمت اگرچہ عبارۃ النص کے طور پر واضح نہیں ہے، مگر دلالۃ النص کے طور پر ضرور ثابت ہوتی ہے اور دلالۃ النص اور عبارۃ النص کے بارے میں انواع التراجم فی صحیح البخاری میں ہم نے واضح کیا ہے، جس کا ذکر عون الباری ج ا کی ابتدا میں کیا گیا، «من شاء فلير جع هناك.»

ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لعل وجهه ان هذه الأيات متعلقة باٰيات الربا والاشارة فى ذالك الي الجميع.» [التوضيح لشرح الجامع للصحيح: 127/21]
ابن ملقن کے مطابق یہ آیات دراصل سود کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، امام قسطلانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق امام بخاری رحمہ اللہ نے تراجم الابواب قائم فرمائے ہیں اس موقع پر ان آیات سے مراد آیات ربا سے لے کر آیات دین تک ہے۔
یعنی امام قسطلانی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی ترجمۃ الباب احادیث کے مخالف نہیں ہے، بلکہ ترجمۃ الباب کا تعلق حدیث کے ساتھ کسی نہ کسی توجیہ کے ساتھ قائم ہے۔

امام سہارنپوری رحمہ االلہ اپنے حاشیہ میں رقمطراز ہیں کہ:
«وأشار المصنف بايراد الحديث الوحد فى هذه التراجم الي أن المراد بالآيات اٰيات الربا كلها الي أخر آية الدين.» [ارشاد الساري: 95/10]
مصنف نے اس حدیث کے ذریعہ اس تراجم کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ان کی مراد آیات سے آیت ربا تک ہے اور وہ سلسلہ دین کی آخری آیت تک ہیں۔
لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3382  
´شراب کی تجارت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب سود کے سلسلے میں سورۃ البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے، اور شراب کی تجارت کو حرام قرار دے دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3382]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سود کی تمام صورتیں حرام ہیں۔
تجارت کی بعض صورتیں بھی اس لئے حرام کردی گئی ہیں۔
کہ ان کا نتیجہ سود کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ (مثلاً بیع عینہ)
اسی طرح جب شراب حرام کی گئی ہو تو اس کی تجارت بھی حرام ہوگئی اس سے شراب نوشی کے راستے کھلتے ہیں۔
نبی اکرمﷺ نے اسی مناسبت سے سود کے لین دین کی حرمت کے ساتھ شراب کی تجارت حرام ہونے کا بھی اعلان فرمایا۔ (تفسیر ابن کثیر سورہ بقرہ آیت: 275)

(2)
ایک مسئلہ بیان کرنے کی ضرورت ہوتو اس کے ساتھ اس سے ملتے جلتے مسائل بھی بیان کیے جا سکتے ہیں تاکہ سامعین کو دوبارہ یاد دہانی ہوجائے۔

(3)
حرام چیز کی خرید وفروخت بھی حرام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3382   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2226  
2226. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ جب سورہ بقرہ کی آخری آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: شراب کی تجارت کو حرام کردیاگیاہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2226]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
شراب کی قیمت وصول کرنا اور اسے استعمال کرنا حرام ہے۔
(مسند أحمد: 117/2)
(2)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی حرمت اور اس کی خریدوفروخت کی ممانعت ان دونوں میں کچھ آگے پیچھے کا فرق ہے۔
بہر حال اصل یہ ہے کہ جس چیز کا استعمال حرام ہے اس کی تجارت بھی حرام ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2226