سنن نسائي
ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه -- ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
193. بَابُ : الْبُزَاقِ يُصِيبُ الثَّوْبَ
باب: کپڑے میں تھوک لگ جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 310
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مِهْرَانَ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْزُقْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ، وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ، وَإِلَّا فَبَزَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا فِي ثَوْبِهِ وَدَلَكَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف تھوکے، یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے نہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے میں اس طرح تھوکا ہے اور اسے مل دیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 13 (550)، سنن ابن ماجہ/إقامة 61 (1022)، (تحفة الأشراف 14669)، مسند احمد 2/250، 415 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 310  
´کپڑے میں تھوک لگ جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اپنے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں طرف تھوکے، یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے نہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے میں اس طرح تھوکا ہے اور اسے مل دیا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 310]
310۔ اردو حاشیہ:
➊ سامنے تھوکنا تو عام حالات میں بھی قبیح ہے۔ نماز میں تو انسان اپنے مالک حقیقی سے ہم کلام ہوتا ہے۔ یوں سمجھے کہ اللہ تعالیٰ سامنے ہے، لہٰذا سامنے تھوکنا تو سخت گستاخی اور بدتہذیبی ہے۔
➋ دائیں طرف تھوکنے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ دائیں طرف فرشتۂ رحمت ہوتا ہے۔
➌ بائیں طرف اس وقت تھوک سکتا ہے جب وہاں کوئی موجود نہ ہو ورنہ وہ اس کی دائیں جانب ہو گی۔ پاؤں کے نیچے بھی تب تھوک سکتا ہے جب مٹی یا ریت پر کھڑا ہو۔ اگر فرش ہے یا صف وغیرہ بچھی ہے تو نیچے تھوکنا بھی منع ہے۔ اس وقت صرف آخری طریقہ قابل عمل ہگا، یعنی کپڑے میں تھوکنے کا، جس کی طرف ورنہ کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے۔
➍ ورنہ کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل بیان کر کے اشارہ کیا گیا ہے کہ ورنہ ایسے کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا تھا۔ آج کل کپڑے کے بجائے ٹشو پیپر کا استعمال بہت مناسب بدل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 310   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث761  
´مسجد میں تھوکنے اور ناک جھاڑنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر رینٹ دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لے کر اسے کھرچ ڈالا، پھر فرمایا: جب کوئی شخص تھوکنا چاہے تو اپنے سامنے اور اپنے دائیں ہرگز نہ تھوکے، بلکہ اپنے بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 761]
اردو حاشہ:
(1)
مسجد کو صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے۔

(2)
ایسی حرکات سے پرہیز کرنا چاہیے جو مسجد کی صفائی کے منافی ہوں۔

(3)
اگر مسجد کی زمین کچی ہو اور اس پر چٹائی وغیرہ بچھی ہوئی نہ ہو تو پاؤں کے نیچا تھوکنا جائز ہے کیونکہ پاؤں سے رگڑے جانے پر وہ زمین میں جذب ہو جائے گا۔

(4)
بائیں طرف تھوکنا اس وقت جائز ہے جب اس طرف کوئی دوسرا نمازی نہ ہو ورنہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے۔

(5)
پختہ فرش پر اور چٹائی اور قالین پر تھوکنا جائز نہیں کیونکہ یہ صفائی کے منافی ہے، البتہ رومال وغیرہ میں تھوک سکتا ہے۔
اگر نماز میں مشغول نہ ہو تو وضو کی جگہ جا کر اس قسم کی ضرورت پوری کرنی چاہیے۔

(6)
سفر وغیرہ میں آج کل بھی یہ صورت پیش آ سکتی ہے کہ کوئی انسان کھلی جگہ میں نماز پڑھ لے جب کہ کوئی مسجد قریب نہ ہو۔
اس صورت میں اگر زمین پر کوئی کپڑا نہیں بچھایا گیا تو زیر مطالعہ حدیث کے مطابق عمل کرنا جائز ہے۔

(7)
رسول اللہﷺ کا اپنے ہاتھ سے دیوار صاف کردینا اعلی اخلاق اور تواضع کی بہترین مثال ہے کیونکہ آپ ﷺنے اس غلطی کا ارتکاب کرنے والے کا تعین کرنا یا اس سے مخاطب ہونا مناسب نہیں سمجھا۔
نبیﷺ کے خود صفائی کردینے سے دیکھنے والوں کو اور خود غلطی کرنے والے کو یقیناً زبردست تنبیہ ہوگئی۔

(8)
چونکہ دیوار کچی تھی اس لیے صفائی کے لیے کنکری سے کھرچ دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 761