صحيح البخاري
كِتَاب السَّلَمِ -- کتاب: بیع سلم کے بیان میں
2. بَابُ السَّلَمِ فِي وَزْنٍ مَعْلُومٍ:
باب: بیع سلم مقررہ وزن کے ساتھ جائز ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، بِهَذَا فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ.
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو اسماعیل نے خبر دی، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا کہ بیع سلم مقررہ پیمانے اور مقررہ وزن میں ہونی چاہئیے۔
حدیث نمبر: 2240
حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يُسْلِفُونَ بِالتَّمْرِ السَّنَتَيْنِ وَالثَّلَاثَ، فَقَالَ:" مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ، فَفِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہیں سفیان بن عیینہ نے خبر دی، انہیں ابن ابی نجیح نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن کثیر نے، انہیں ابومنہال نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ کھجور میں دو اور تین سال تک کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ جسے کسی چیز کی بیع سلم کرنی ہے، اسے مقررہ وزن اور مقررہ مدت کے لیے ٹھہرا کر کرے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2280  
´متعین ناپ تول میں ایک مقررہ مدت کے وعدے پر بیع سلف کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، اس وقت اہل مدینہ دو سال اور تین سال کی قیمت پہلے ادا کر کے کھجور کی بیع سلف کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کھجور میں بیع سلف کرے یعنی قیمت پیشگی ادا کر دے تو اسے چاہیئے کہ یہ بیع متعین ناپ تول اور مقررہ میعاد پر کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2280]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
چیز کی قیمت پیشگی وصول کر لینا اور چیز بعد میں مقررہ وقت پر ادا کرنا بیع سلم اور بیع سلف کہلاتا ہے۔

(2)
اس بیع کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ بیچی اور خریدی جانے والی چیز کی مقدار، نوعیت، مطلوبہ چیز کی ادائیگی اور وصولی کا وقت اور دوسرے ایسے معاملات کا پہلے سے تعین کر لیا جائے جن میں اختلاف ہونے کا خطرہ ہے۔

(3)
بیع سلف میں یہ ضروری نہیں کہ بیچنے والے کے پاس وہ چیز اس وقت موجود ہو بلکہ جب غالب امکان ہو کہ وعدے کے وقت تک بیچنے والا وہ چیز حاصل کر لے گا اور مقررہ وقت پر خریدار کے حوالے کر سکے گا تو یہ کافی ہے۔

(4)
بیع سلف میں قیمت کا تعین بھی پہلے ہی ہوتا ہے جب رقم ادا کی جاتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2280   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3463  
´بیع سلف (سلم) کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت لوگ پھلوں میں سال سال، دو دو سال، تین تین سال کی بیع سلف کرتے تھے (یعنی مشتری بائع کو قیمت نقد دے دیتا اور بائع سال و دو سال تین سال کی جو بھی مدت متعین ہوتی مقررہ وقت تک پھل دیتا رہتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھجور کی پیشگی قیمت دینے کا معاملہ کرے اسے چاہیئے کہ معاملہ کرتے وقت پیمانہ وزن اور مدت سب کچھ معلوم و متعین کر لے ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3463]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
عبادات اور معاملات میں معروف فقہی قاعدہ ہے۔
کہ عبادات میں اصل منع ہے۔
یعنی کوئی عبادت نہیں کی جا سکتی سوائے اس کے جس کی شریعت اجازت دے۔
اور معاملات (جو لوگوں میں جاری وساری ہوں) اصلاً حلال اور جائز ہیں۔
الا یہ کہ کسی معاملے کے متعلق شریعت منع کردے۔
بیع سلف یا سلم پہلے سے لوگوں کامعمول تھی۔
جس کی نبی کریم ﷺنے توثیق فرمائی۔
تا ہم یہ پابندی لگائی کہ امل کی صفت بھرتی یا وزن اور مدت معلوم ومتعین ہو۔
اس کے بغیر بیع سلم جائز نہیں ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3463   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2240  
2240. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں کےباشندے دو تین سال کی معیاد پر کھجوروں کے متعلق پیشگی رقم ادا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب کوئی کسی چیز کے متعلق بیع سلم کرے تو معین ماپ معین وزن اور معین میعاد ٹھہرا کرکرے۔ علی نے یہ روایت سفیان عن ابن ابی نجیح کے طریق سے بیان کی تو اس کے الفاظ اس طرح بیان کیے: معین ماپ اور معین میعاد ٹھہرا کر بیع سلم کرنی چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2240]
حدیث حاشیہ:
مثلاً سو روپے کا اتنے وزن کا غلہ آج سے پورے تین ماہ بعد تم سے وصول کروں گا۔
یہ طے کرکے خریدار نے سو روپیہ اسی وقت ادا کردیا۔
یہ بیع سلم ہے، جو جائز ہے۔
اب مدت پوری ہونے پر وزن مقررہ کا غلہ اسے خریدار کو ادا کرنا ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2240   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2240  
2240. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں کےباشندے دو تین سال کی معیاد پر کھجوروں کے متعلق پیشگی رقم ادا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: جب کوئی کسی چیز کے متعلق بیع سلم کرے تو معین ماپ معین وزن اور معین میعاد ٹھہرا کرکرے۔ علی نے یہ روایت سفیان عن ابن ابی نجیح کے طریق سے بیان کی تو اس کے الفاظ اس طرح بیان کیے: معین ماپ اور معین میعاد ٹھہرا کر بیع سلم کرنی چاہیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2240]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں کھجور کا ذکر ہے کیونکہ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کے متعلق ہی بیع سلم ہوا کرتی تھی، لیکن اگر کھجوریں درخت پر ہیں اور ان کی بیع سلم کرنی ہے تو اس کی شرائط آگے بیان ہوں گی، اس مقام پر صرف یہ بیان کرنا مقصد ہے کہ ماپ اور وزن کے ساتھ مدت کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، اگر اس میں خیانت ہوتو مقدمہ کیا جاسکتا ہے اور تاوان بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔
(2)
روز مرہ کی اشیاء ایسی بھی ہیں جن کا سودا گنتی کے اعتبار سے ہوتا ہے، مثلاً:
انڈوں کی خریدوفروخت ان میں گنتی کا اعتبار ہوگا۔
یاد رہے کہ رقم کی ادائیگی میں کچھ پیشگی ہوسکتی ہے اور کچھ آئندہ وعدے پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔
اس سلسلے میں بنک گارنٹی بھی کارآمد ہے بشرطیکہ اس میں سود کی آمیزش نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2240