سنن نسائي
كتاب الصلاة -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
14. بَابُ : الْمُحَافَظَةِ عَلَى صَلاَةِ الْعَصْرِ
باب: نماز عصر کی محافظت کا بیان۔
حدیث نمبر: 473
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَمَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنْ أَكْتُبَ لَهَا مُصْحَفًا، فَقَالَتْ: إِذَا بَلَغْتَ هَذِهِ الْآيَةَ فَآذِنِّي حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى سورة البقرة آية 238، فَلَمَّا بَلَغْتُهَا آذَنْتُهَا، فَأَمْلَتْ عَلَيَّ:" حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ". ثُمَّ قَالَتْ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابو یونس کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں، اور کہا: جب اس آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى» (البقرہ: ۲۸۳) پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے انہیں بتایا، تو انہوں نے مجھے املا کرایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پھر انہوں نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 39 (629)، سنن ابی داود/الصلاة 5 (410)، سنن الترمذی/تفسیر البقرة (2982)، موطا امام مالک/صلاة الجماعة 8 (25)، (تحفة الأشراف: 17809)، مسند احمد 6/73، 178 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صلاۃ وسطیٰ عصر کے علاوہ کوئی اور صلاۃ ہے إلاّ یہ کہ اسے عطف تفسیری مانا جائے، اور صحیح بھی یہی لگتا ہے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کی تفسیر کے طور پر ذکر کیا ہو گا، اور اسے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت کا جزء سمجھ لیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 473  
´نماز عصر کی محافظت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابو یونس کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں، اور کہا: جب اس آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى» (البقرہ: ۲۸۳) پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو میں نے انہیں بتایا، تو انہوں نے مجھے املا کرایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پھر انہوں نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 473]
473 ۔ اردو حاشیہ:
➊حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جو وصلاۃ العصر کا اضافہ فرمایا ہے، یہ دراصل تفسیر ہے صلاۃ وسطیٰ کی جو بعض احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ورنہ یہ قرآن مجید کے الفاظ نہیں۔ صلاۃ الوسطیٰ سے مراد ہے افضل نماز۔ اور وہ احادیث صحیحہ کے مطابق عصر کی نماز ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6396، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 628]
اگرچہ بعض لوگوں نے صلاۃ وسطیٰ کے معنی درمیانی نماز کیے ہیں، لیکن ہر نماز درمیانی بن سکتی ہے، مثلاً: ظہر دن کے درمیان میں ہے۔ مغرب رکعات کے لحاظ سے درمیانی نماز ہے۔ عشاء جہری نمازوں میں درمیانی نماز ہے۔ فجر کی نماز دن اور رات کے درمیان ہے، لہٰذا یہ معنی صحیح معلوم نہیں ہوتے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 473   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 410  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
قعقاع بن حکیم ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام ابویونس سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں اور کہا کہ جب تم آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» پر پہنچنا تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے مجھ سے اسے یوں لکھوایا: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين‏» ۱؎ ۲؎، پھر عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 410]
410۔ اردو حاشیہ:
➊ اس قرأت سے معلوم ہوتا ہے کہ «صلوة الوسطي» سے مراد، عصر کی نماز نہیں کوئی اور نماز ہے کیونکہ عطف مغائرت کا مقتضی ہے۔ لیکن علماء نے اس حدیث کی تین توجیہات کی ہیں۔ اس حدیث میں وارد شدہ آیت کریمہ کے الفاظ اصطلاحی طور پر شاذ قرأت کہلاتے ہیں جو حجت نہیں۔ قرآن کریم کے لیے تواتر شرط ہے۔ اس قسم کی قرأت تفسیر وتوضیح میں ممدومعاون ہوتی ہے۔ علامہ باجی نے کہا ہے احتمال ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو مگر بعد میں اسے منسوخ کر دیا گیا ہو جس کا انہیں علم نہ ہو سکا ہو۔ یا ان (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) کا خیال ہو گا کہ اس آیت کے الفاظ باقی اور حکم منسوخ ہوا ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور فضیلت اس کا ذکر فرمایا مگر حضرت عائشہ رضی للہ عنہا نے اسے الفاظ قرآن باور کیا۔ اور اسی بنیاد پر اپنے مصحف میں درج کرا لیا۔
➋ یا یہ عطف تفسیری ہو (یعنی توضیح کے لیے۔)
➌ یا واؤ زائدہ ہو، اس کی تائید حضرت ابی بن کعب کی قرأت سے بھی ہوتی ہے جس میں صلوۃ العصر کے الفاظ بغیر واؤ کے ہیں۔ «والله أعلم .» (عون المعبود) لفظ (وسطی) مجمل ہے۔ ایک معنی تو عام ہیں یعنی درمیانی۔ لیکن دوسرے معنی افضل و اعلی ہیں جیسے کہ آیت کریمہ
«وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ» [البقره: 143]
اور ایسے ہی ہم نے تمہیں افضل و اعلیٰ امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو۔
میں امت وسط سے مراد افضل و اعلی امت ہے۔ اسی طرح «الصلوة الوسطي» کے معنی افضل و اعلی بنتے ہیں اور احادیث کی کثیر تعداد اس سے نماز عصر ہی مراد ہونے کا فائدہ دیتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 410   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2982  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے غلام ابو یونس کہتے ہیں کہ مجھے عائشہ رضی الله عنہا نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھ کر تیار کر دوں۔ اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تم آیت: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى» ۱؎ پر پہنچو تو مجھے خبر دو، چنانچہ جب میں اس آیت پر پہنچا اور میں نے انہیں خبر دی، تو انہوں نے مجھے بول کر لکھایا «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وصلاة العصر وقوموا لله قانتين» ۱؎ نمازوں پر مداومت کرو اور درمیانی نماز کا خاص خیال کرو، اور نماز عصر کا بھی خاص دھیان رکھو اور اللہ کے آگے خضوع و خشوع سے کھڑے ہوا کرو۔‏‏‏‏ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2982]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نمازوں کی حفاظت کرو،
بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالیٰ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو (البقرۃ: 238)
2؎:
یہ قراءت شاذ ہے اس لیے اس کا اعتبار نہیں ہوگا،
یا یہاں واوعطفِ مغایرت کے لیے نہیں ہے بلکہ عطفِ تفسیری ہے تب اگلی حدیث کے مطابق ہو جائے گا کہ الصلاة الوسطى سے مراد عصر کی نماز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2982