صحيح البخاري
كِتَاب السَّلَمِ -- کتاب: بیع سلم کے بیان میں
5. بَابُ الْكَفِيلِ فِي السَّلَمِ:
باب: سلم یا قرض میں ضمانت دینا۔
حدیث نمبر: 2251
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتِ:" اشْتَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا مِنْ يَهُودِيٍّ بِنَسِيئَةٍ، وَرَهَنَهُ دِرْعًا لَهُ مِنْ حَدِيدٍ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعلیٰ بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے بیان کیا ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا اور اپنی ایک لوہے کی زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2251  
2251. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار پر غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2251]
حدیث حاشیہ:
تو وہ زرہ بطور ضمانت یہودی کے پاس رہی، معلوم ہوا کہ سلم یا قرض میں اگر دوسرا کوئی شخص سلم والے یا قرض دار کا ضامن ہو تو یہ درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2251   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2251  
2251. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار پر غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2251]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے رہن رکھنے سے کفالت کا مسئلہ ثابت کیا ہے کیونکہ گروی رکھنے سے مقصود بھی کفالت ہی ہوتا ہے، لہٰذا کسی کی کفالت پر بھی کوئی معاملہ کیا جاسکتا ہے۔
(2)
دراصل امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ بعض اوقات عنوان سے کسی حدیث کی طرف اشارہ کردیتے ہیں،چنانچہ انھوں نے خود کتاب الرہن میں ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت ابراہیم نخعی کے پاس رہن اور بیع سلم میں کفیل کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے اس کے ثبوت کے لیے مذکورہ حدیث عائشہ پیش کردی۔
(صحیح البخاري، الرھن، حدیث: 2509)
گویا ابراہیم نخعی نے بیع سلم میں خرید کردہ چیز موقع پر دینے کے لیے اس حدیث سے کفالت کو ثابت کیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا بھی یہی مقصود ہے، لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ مذکورہ حدیث پیش کردہ عنوان پر دلالت نہیں کرتی۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2251