صحيح البخاري
كِتَاب الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
3. بَابُ اسْتِئْجَارِ الْمُشْرِكِينَ عِنْدَ الضَّرُورَةِ أَوْ إِذَا لَمْ يُوجَدْ أَهْلُ الإِسْلاَمِ:
باب: جب کوئی مسلمان مزدور نہ ملے تو ضرورت کے وقت مشرکوں سے مزدوری کرانے کا بیان۔
وَعَامَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودَ خَيْبَرَ.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیر کے یہودیوں سے کام لیا (ان سے بٹائی پر معاملہ کیا تھا)۔
حدیث نمبر: 2263
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،"وَاسْتَأْجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ، ثُمَّ مِنْ بَنِي عَبْدِ بْنِ عَدِيٍّ هَادِيًا خِرِّيتًا، الْخِرِّيتُ الْمَاهِرُ بِالْهِدَايَةِ، قَدْ غَمَسَ يَمِينَ حِلْفٍ فِي آلِ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَأَمِنَاهُ، فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، فَأَتَاهُمَا بِرَاحِلَتَيْهِمَا صَبِيحَةَ لَيَالٍ ثَلَاثٍ، فَارْتَحَلَا وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ وَالدَّلِيلُ الدِّيلِيُّ، فَأَخَذَ بِهِمْ أَسْفَلَ مَكَّةَ وَهُوَ طَرِيقُ السَّاحِلِ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے (ہجرت کرتے وقت) بنو دیل کے ایک مرد کو نوکر رکھا جو بنو عبد بن عدی کے خاندان سے تھا۔ اور اسے بطور ماہر راہبر مزدوری پر رکھا تھا (حدیث کے لفظ) «خريت» کے معنی راہبری میں ماہر کے ہیں۔ اس نے اپنا ہاتھ پانی وغیرہ میں ڈبو کر عاص بن وائل کے خاندان سے عہد کیا تھا اور وہ کفار قریش ہی کے دین پر تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس پر بھروسہ تھا۔ اسی لیے اپنی سواریاں انہوں نے اسے دے دیں اور غار ثور پر تین رات کے بعد اس سے ملنے کی تاکید کی تھی۔ وہ شخص تین راتوں کے گزرتے ہی صبح کو دونوں حضرات کی سواریاں لے کر وہاں حاضر ہو گیا۔ اس کے بعد یہ حضرات وہاں سے عامر بن فہیرہ اور اس دیلی راہبر کو ساتھ لے کر چلے۔ یہ شخص ساحل کے کنارے سے آپ کو لے کر چلا تھا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4083  
´سر ڈھانپنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم اپنے گھر میں گرمی میں عین دوپہر کے وقت بیٹھے تھے کہ اسی دوران ایک کہنے والے نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر ڈھانپے ایک ایسے وقت میں تشریف لا رہے ہیں جس میں آپ نہیں آیا کرتے ہیں چنانچہ آپ آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اجازت دی تو آپ اندر تشریف لائے۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4083]
فوائد ومسائل:
1: یہ واقعہ سفر ہجرت کی تیاری کے دنوں کا ہے۔

2: مرد کے لئے مباح ہے کہ موسم یا احوال کی مناسبت سے سر اور چہرہ ڈھانپ لے تو کوئی حرج نہیں، کبھی حیا سے بھی ایسا ہو سکتا ہے۔

3: دوسرے کے گھر میں خواہ وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو اجازت لے کراندر جانا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4083   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2263  
2263. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ نے ہجرت کا راستہ بتلانے کے لیے ایک ماہر شخص کو رکھا جو بنو دیل سے تھا۔ یہ بنو عہد بن عدی کا ایک خاندان ہے۔ خریت راستہ بتانے میں ماہر شخص کو کہتے ہیں۔۔۔ شخص عاص بن وائل کے خاندان سے معاہدے میں بڑا مضبوط شریک رہا تھا اور کفار قریش کے دین پر تھا۔ دونوں حضرات نے اس پر اعتماد کیا اور اپنی دونوں سواریاں اس کے حوالے کردیں اور اس سے تین دن کے بعد غارثور میں آنے کا وعدہ لیا، چنانچہ وہ تیسری رات کی صبح کو دونوں سواریاں لے کر ان کے پاس آیا تو آپ دونوں روانہ ہوئے۔ ان کے ساتھ عامر بن فہیرہ بھی چلے اور وہ رہن بھی جو قبیلہ دیل سے تھا۔ وہ انھیں مکے کے زیریں علاقے، یعنی ساحل سمندر کے ر استے پر لے گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2263]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بوقت ضرورت مشرک کو مزدور رکھنے کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ کو جب کوئی مسلمان رہنما نہ ملا تو انھوں نے مشرک کو بطور رہبر ساتھ رکھا۔
اسی طرح خیبر کی زمین کو آباد رکھنے کےلیے جب ماہر مسلمان نہ ملے تو یہود خیبر سے معاملہ طے کیا گیا۔
امام بخاری ؒ کے ترجمۃ الباب سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک سے بلا ضرورت مزدوری نہیں کروانی چاہیے جبکہ ذکر کردہ احادیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چہ ان احادیث میں مشرک سے مزدوری نہ کرانے کی صراحت نہیں ہے لیکن شاید امام بخاری ؒ کے پیش نظر ایک دوسری حدیث ہے جس میں ہے کہ ہم مشرک سے تعاون نہیں لیتے، اس طرح انھوں نے دونوں احادیث میں تطبیق کی صورت پیدا کی ہے کہ بوقت ضرورت مشرک کو اجیر بنایا جاسکتا ہے، تاہم مسلمان کو ترجیح دی جائے۔
لیکن عام فقہاء کا موقف ہے کہ مشرک سے ہر وقت مزدوری کرائی جاسکتی ہے کیونکہ اس سے مزدوری لینے میں اس کی ذلت ہے، البتہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ کسی مشرک کا اجیر نہ بنے کیونکہ اس میں مسلمان کی توہین ہے۔
(فتح الباري: 559/4)
مقام غور ہے کہ اس وقت مشرکین بھی اپنے عہد کی کس قدر پاسداری کرتے تھے کہ دشمن ہونے کے باوجود اس شخص نے کسی کو نہیں بتایا،حالانکہ کفار قریش نے رسول اللہ ﷺ کی گرفتاری پر بھاری انعام مقرر کررکھا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2263