سنن نسائي
كتاب المساجد -- کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
6. بَابُ : فَضْلِ الْمَسْجِدِ الأَقْصَى وَالصَّلاَةِ فِيهِ
باب: مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) اور اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 694
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ دَاوُدَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَنَى بَيْتَ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خِلَالًا ثَلَاثَةً: سَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ فَأُوتِيَهُ، وَسَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ فَأُوتِيَهُ، وَسَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حِينَ فَرَغَ مِنْ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ أَنْ لَا يَأْتِيَهُ أَحَدٌ لَا يَنْهَزُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ فِيهِ أَنْ يُخْرِجَهُ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلیمان بن داود علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة 196 (1408)، (تحفة الأشراف: 8844)، مسند احمد 2/176 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 694  
´مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) اور اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلیمان بن داود علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 694]
694 ۔ اردو حاشیہ: پہلی دو درخواستوں پر قبولیت ہو گئی اور اس کا بیان بھی حدیث میں آگیا۔ تیسری درخواست پر قبولیت کا ذکر پہلی دو کی طرح حدیث میں نہیں آیا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں یہ ضرور فرمایا ہے کہ «فنحن نرجوا أن یکون اللہ عزوجل قد أعطاہ إیاہ» [مسند احمد: 176/2]
ہمیں امید ہے کہ اللہ عزوجل نے ان (سلیمان ؑ) کو یہ بھی عطا کر دیا ہو گا۔ لہٰذا اس کی بھی قبولیت معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ بیت اللہ کے بارے میں تو احادیث میں ذکر ہے کہ جو اس کا حج کرے وہ گناہوں سے کلیتاً پاک ہو جاتا ہے جیسے اسے اس کی ماں نے جنا ہو۔ [صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1521، و صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1350]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 694   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1408  
´بیت المقدس میں نماز پڑھنے کی فضیلت۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب سلیمان بن داود علیہما السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگیں، ایک تو یہ کہ میں مقدمات میں جو فیصلہ کروں، وہ تیرے فیصلے کے مطابق ہو، دوسرے مجھ کو ایسی حکومت دے کہ میرے بعد پھر ویسی حکومت کسی کو نہ ملے، تیسرے یہ کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز ہی کے ارادے سے آئے وہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے جیسے اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو باتیں تو اللہ تعالیٰ نے سلیم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1408]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اللہ کے فیصلے کے مطابق کا مطلب یہ ہے کہ انھیں صحیح فیصلے کرنے کی توفیق ملے اور ان سے اجتہادی غلطی نہ ہو۔

(2)
پہلی دو درخواستوں کی قبولیت قرآن میں مذکور ہے۔
ارشاد ہے:
﴿وَآتَيْنَاهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ﴾  (ص: 20)
 ہم نے اسے حکمت دی اور بات کا فیصلہ کرنا نیز ارشاد ہے:
﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴿35﴾ فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِي بِأَمْرِهِ رُخَاءً حَيْثُ أَصَابَ ﴿36﴾ وَالشَّيَاطِينَ كُلَّ بَنَّاءٍ وَغَوَّاصٍ ﴿37﴾ وَآخَرِينَ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ﴾  (ص: 35)
 انھوں نے کہا! اے میرے رب مجھے بخش دے۔
اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما۔
جو میرے سوا کسی کے لائق نہ ہو۔
بلاشبہ تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔
چنانچہ ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کردیا۔
وہ ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے نرمی سے پہنچا دیا کرتی تھی۔
اور ہر عمارت بنانے والے غوطہ خور شیاطین (جنات)
کو بھی (ان کے ماتحت کردیا)
اور دوسرے (جنات)
کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔

(3)
اس حدیث میں بیت المقدس کی زیارت اور وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1408