سنن نسائي
كتاب المساجد -- کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
8. بَابُ : ذِكْرِ الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى
باب: تقویٰ اور اخلاص کی بنیاد پر بنائی جانے والی مسجد کا بیان۔
حدیث نمبر: 698
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قال: تَمَارَى رَجُلَانِ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: هُوَ مَسْجِدُ قُبَاءَ، وَقَالَ الْآخَرُ: هُوَ مَسْجِدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ مَسْجِدِي هَذَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمی اس بارے میں لڑ پڑے کہ وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، تو ایک شخص نے کہا: یہ مسجد قباء ہے، اور دوسرے نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میری یہ مسجد ہے (یعنی مسجد نبوی)۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 96 (1398)، سنن الترمذی/تفسیر التوبة 10 (3099)، (تحفة الأشراف: 4118)، مسند احمد 3/8، 89 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 698  
´تقویٰ اور اخلاص کی بنیاد پر بنائی جانے والی مسجد کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو آدمی اس بارے میں لڑ پڑے کہ وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، تو ایک شخص نے کہا: یہ مسجد قباء ہے، اور دوسرے نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میری یہ مسجد ہے (یعنی مسجد نبوی)۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 698]
698 ۔ اردو حاشیہ: اہل تفسیر کے مطابق «لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى» [التوبة 108: 9]
سے مراد مسجد قباء ہے کیونکہ یہ شان نزول کے زیادہ موافق ہے مگر اس حدیث کی رو سے اس سے مراد مسجد نبوی ہے۔ دراصل دونوں مسجدیں ان الفاظ کا مصداق ہیں کیونکہ دونوں مسجدوں کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ہے اور ظاہر ہے دونوں کی بنیاد لازماً تقویٰ پر ہے مگر چونکہ مسجد نبوی کی باقی تعمیر بھی آپ نے فرمائی اور آپ کی باقی زندگی اسی مسجد میں گزری، اسی مسجد کو آپ کے شب و روز سے برکتیں حاصل ہوئیں، لہٰذا یہ مسجد ہی زیادہ مستحق ہے کہ اسے اس کا مصداق قرار دیا جائے، البتہ مسجد قباء کو بھی ہفتے کے بعد کچھ دیر کے لیے آپ کی زیارت اور قدم بوسی نصیب ہوتی تھی، لہٰذا اس میں بھی خیر کثیر ہے۔ تبھی تو وہاں بھی نمازیوں کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے، اگرچہ مسجد نبوی کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 698   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 323  
´اس مسجد کا بیان جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی خدرہ کے ایک شخص اور بنی عمرو بن عوف کے ایک شخص کے درمیان بحث ہو گئی کہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ۱؎ تو خدری نے کہا: وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد (یعنی مسجد نبوی) ہے، دوسرے نے کہا: وہ مسجد قباء ہے، چنانچہ وہ دونوں اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: وہ یہ مسجد ہے، یعنی مسجد نبوی اور اس میں (یعنی مسجد قباء میں) بھی بہت خیر و برکت ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 323]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی سورہ توبہ میں ارشاد الٰہی ﴿لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ﴾ سے کون سی مسجد مراد ہے؟۔

2؎:
یہ حدیث صرف اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہے کہ  ﴿لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى﴾ سے مراد مسجد نبوی ہی ہے،
بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ اس مسجد نبوی کی بھی تقوی پر ہی بنیاد ہے،
یہ مطلب لوگوں نے اس لیے لیا ہے کہ قرآن میں سیاق و سباق سے صاف واضح ہوتا ہے کہ یہ ارشاد ربانی مسجد قباء کے بارے میں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 323