سنن نسائي
كتاب المساجد -- کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
33. بَابُ : الرُّخْصَةِ لِلْمُصَلِّي أَنْ يَبْصُقَ خَلْفَهُ أَوْ تِلْقَاءَ شِمَالِهِ
باب: نمازی کو اپنے پیچھے یا بائیں جانب تھوکنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 727
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قال: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُحَارِبِيِّ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كُنْتَ تُصَلِّي، فَلَا تَبْزُقَنَّ بَيْنَ يَدَيْكَ وَلَا عَنْ يَمِينِكَ، وَابْصُقْ خَلْفَكَ أَوْ تِلْقَاءَ شِمَالِكَ إِنْ كَانَ فَارِغًا، وَإِلَّا فَهَكَذَا: وَبَزَقَ تَحْتَ رِجْلِهِ وَدَلَكَهُ".
طارق بن عبداللہ محاربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز پڑھ رہے ہو تو اپنے سامنے اور اپنے داہنے ہرگز نہ تھوکو، بلکہ اپنے پیچھے تھوکو، یا اپنے بائیں تھوکو، بشرطیکہ بائیں طرف کوئی نہ ہو، ورنہ اس طرح کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیر کے نیچے تھوک کر اسے مل دیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة22 (478)، سنن الترمذی/الصلاة 284، الجمعة 49 (571) مختصراً، سنن ابن ماجہ/إقامة 61 (1021) مختصراً، (تحفة الأشراف: 4987)، مسند احمد 6/396 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1021  
´نمازی کے تھوکنے کا بیان۔`
طارق بن عبداللہ محاربی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز پڑھو تو اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکو، بلکہ اپنے بائیں جانب یا قدم کے نیچے تھوک لو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1021]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
نماز کے دوران میں سامنے کی طرف تھوکنا ادب کے منافی ہے۔
رسول اللہﷺ نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ہے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجه، المساجد والجماعات باب کراھیة النخامة فی المسجد، حدیث: 761 تا 764)

(2)
دایئں طرف بھی احترام والی سمت ہے اس لئے اس طرف بھی نہیں تھوکنا چاہیے۔
بایئں طرف اگردوسرا نمازی کھڑا ہو تو اس طرف بھی تھوکنے سے پرہیز کرنا چاہیے اگر ادھر کوئی نہ ہو تو تھوکنا جائز ہے۔

(3)
مسجد میں بایئں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوکنا اس صورت میں جائز ہے۔
جب مسجد کی زمین اس قسم کی ہو جو رطوبت کو جذب کرسکتی ہو ورنہ مسجد کو آلودہ کرنا جائز نہیں۔
خصوصا جب کہ چٹائی یا قالین پر نماز پڑھ رہا ہو تو اسے آلودہ کرنا کسی حال میں بھی جائز نہیں۔
اس صورت میں رومال استعمال کرنا چاہیے جیسے کہ اگلی حدیث میں صراحت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1021