سنن نسائي
كتاب الافتتاح -- کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
45. بَابُ : الْقِرَاءَةِ فِي الصُّبْحِ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ
باب: نماز فجر میں معوذتین پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 953
أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ حِزَامٍ التِّرُمِذِيُّ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قال: أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ،" أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُعَوِّذَتَيْنِ قَالَ عُقْبَةُ: فَأَمَّنَا بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کے متعلق پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں انہیں دونوں سورتوں کے ذریعہ ہماری امامت فرمائی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 9915)، ویأتی عند المؤلف برقم: 5436 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: معوذتین سے مراد «قل أعوذ برب الناس» اور «قل أعوذ برب الفلق» ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 953  
´نماز فجر میں معوذتین پڑھنے کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کے متعلق پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں انہیں دونوں سورتوں کے ذریعہ ہماری امامت فرمائی۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 953]
953 ۔ اردو حاشیہ:
➊ معوذتین سے مراد قرآن مجید کی آخری دو سورتیں: « ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ﴾ » اور « ﴿قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ﴾ » ہیں۔ انہیں معوذتین اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ جادو اور جن وغیرہ کے شر سے انسان کو پناہ مہیا کرتی ہیں بلکہ ان کے اتارنے کا سبب ہی یہ ہے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دونوں سورتیں قرآن مجید کا جز ہیں اور انہیں نماز میں پڑھا جا سکتا ہے نہ کہ جیسا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ یہ صرف دم اور تعویذ کے لیے ہیں، ان کی قرأت درست نہیں اور نہ یہ قرآن کا جز ہیں۔ اس حدیث کی مزید تفصیل اگلے باب میں آرہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو صبح کی نماز میں پڑھنا ان کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔
➌ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تو صبح کی نماز میں لمبی قرأت کرنا ہی تھا لیکن کبھی کبھی بیان جواز کے لیے چھوٹی سورتیں بھی پڑھ لیا کرتے تھے جیسے سورۂ زلزال کے بارے میں ہے کہ آپ نے فجر کی نماز میں اسے پڑھا تھا۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 816]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 953