سنن نسائي
باب سجود القرآن -- ابواب: قرآن میں سجدوں کا بیان
77. بَابُ : تَعَوُّذِ الْقَارِئِ إِذَا مَرَّ بِآيَةِ عَذَابٍ
باب: قاری کا عذاب سے متعلق آیت پر گزر ہو تو اللہ کی پناہ مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1009
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الْأَحْنَفِ، عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ، عَنْ حُذَيْفَةَ" أَنَّهُ صَلَّى إِلَى جَنْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَقَرَأَ فَكَانَ إِذَا مَرَّ بِآيَةِ عَذَابٍ وَقَفَ وَتَعَوَّذَ وَإِذَا مَرَّ بِآيَةِ رَحْمَةٍ وَقَفَ فَدَعَا وَكَانَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ وَفِي سُجُودِهِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى".
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں نماز پڑھی، تو آپ نے قرأت کی، آپ جب کسی عذاب کی آیت سے گزرتے تو تھوڑی دیر ٹھہرتے، اور پناہ مانگتے، اور جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو دعا کرتے ۱؎، اور رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہتے، اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» کہتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 27 (772)، سنن ابی داود/الصلاة 151 (871)، سنن الترمذی/الصلاة 79 (262، 263)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 23 (897)، 179 (1351)، (تحفة الأشراف: 3351)، مسند احمد 5/382، 384، 389، 394، 397، سنن الدارمی/الصلاة 69 (1345)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 1047، 1134، 1665، 1666 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «صلى إلى جنب النبي صلى الله عليه وسلم» سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تہجد کی نماز تھی، اسی لیے علماء نے اسے نفل نمازوں کے ساتھ خاص قرار دیا ہے شیخ عبدالحق لمعات میں لکھتے ہیں: «وهو محمول عندنا على النوافل» یعنی یہ ہمارے نزدیک نوافل پر محمول ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1009  
´قاری کا عذاب سے متعلق آیت پر گزر ہو تو اللہ کی پناہ مانگنے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں نماز پڑھی، تو آپ نے قرأت کی، آپ جب کسی عذاب کی آیت سے گزرتے تو تھوڑی دیر ٹھہرتے، اور پناہ مانگتے، اور جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو دعا کرتے ۱؎، اور رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہتے، اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» کہتے تھے۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1009]
1009۔ اردو حاشیہ: قرآن مجید پڑھتے وقت انسان میں جذب کی کیفیت ہونی چاہیے کہ قرآن کا ہر لفظ اس پر اثر کرے۔ اس کیفیت سے پڑھنے والا انسان لازماً وہی کرے گا جواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بیان کیا گیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ رحمت کی آیت سے گزر جائے اور رحمت طلب نہ کرے یا عذاب کا ذکر پڑھے اور عذاب سے بچاؤ کی درخواست نہ کرے۔ قرآن کا اثر ہونا لازمی امر ہے۔ اس کیفیت کو صرف نفل نماز سے خاص کرنا احناف کی زیادتی ہے۔ کیا فرض نماز میں خشوع خضوع ممنوع ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ نوافل سے زیادہ مطلوب ہے، اس لیے فرائض میں بھی آیت عذاب یا رحمت پڑھتے وقت عذاب سے پناہ اور رحمت کی التجا کرنا مستحسن امر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1009   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1351  
´تہجد (قیام اللیل) میں قرات قرآن کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جب کسی رحمت کی آیت سے گزرتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کا سوال کرتے، اور عذاب کی آیت آتی تو اس سے پناہ مانگتے، اور جب کوئی ایسی آیت آتی جس میں اللہ تعالیٰ کی پاکی ہوتی تو تسبیح کہتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1351]
اردو حاشہ:
فوئد و مسائل:

(1)
قراءت قرآن انتہائی غور وفکر سے کرنی چاہیے۔
خواہ نماز کے دوران میں ہو یا اس کے علاوہ-
(2)
تلاوت قرآن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ رحمت کی آیات پر دعا اور آیات عذاب پر تعوذ کیا جائے۔
اور یہ تبھی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ اور مفہوم آتا ہو۔
ہمارے ہاں مساجد میں امام کی قراءت کے دوران میں مقتدی بلند آواز سے ان آیات کا جواب دیتے ہیں۔
جو کہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔
لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(3)
اللہ کی تسبیح کا طریقہ یہ ہے کہ سبحان اللہ کہا جائے۔
یعنی اللہ پاک ہے عذاب کی آیت پر (اللهم أَجِرْنِي مِنَ النَّارِ)
 اے اللہ! مجھے آگ (کے عذاب)
سے پناہ دے۔
یا ایسی کوئی مناسب دعا پڑھی جاسکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1351