سنن نسائي
باب سجود القرآن -- ابواب: قرآن میں سجدوں کا بیان
83. بَابُ : تَزْيِينِ الْقُرْآنِ بِالصَّوْتِ
باب: خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1019
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا أَذِنَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِشَيْءٍ يَعْنِي أَذَنَهُ لِنَبِيٍّ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبی کے خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کو اللہ تعالیٰ جس طرح سنتا ہے اس طرح کسی اور چیز کو نہیں سنتا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 19 (5024)، صحیح مسلم/المسافرین 34 (792)، (تحفة الأشراف: 15144) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1018  
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ کوئی چیز اتنی پسندیدگی سے نہیں سنتا جتنی خوش الحان نبی کی زبان سے قرآن سنتا ہے، جو اسے خوش الحانی کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتا ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1018]
1018۔ اردو حاشیہ:
خوب صورت آواز والے نبی سے مراد بعض کے نزدیک خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد انبیاء کی جماعت ہے۔ جنھوں نے اس سے مراد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں، انہیں وہم ہوا ہے۔ [فتح الباري: 87/9، تحت حدیث: 5023]
➋ اس حدیث مبارکہ سے اللہ کی صفت سماع ثابت ہوتی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1018   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1019  
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبی کے خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کو اللہ تعالیٰ جس طرح سنتا ہے اس طرح کسی اور چیز کو نہیں سنتا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1019]
1019۔ اردو حاشیہ: بعض لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی فکر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہے ایسی احادیث سن کر بڑے پیچاں و غلطاں ہو جاتے ہیں کہ کان لگانا، غور کرنا، توجہ فرمانا، سنتا تواللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں، لہٰذا تاویل کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ ان تاویلات سے تو یہ احادیث ہی بے معنیٰ ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اسمائے حسنیٰ ہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ تف ہے ایسی عقل پر جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھانے بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو جاننے والے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1019   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1473  
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی کی اتنی نہیں سنتا جتنی ایک خوش الحان رسول کی سنتا ہے جب کہ وہ قرآن کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھ رہا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1473]
1473. اردو حاشیہ: یہاں [يتغنی بالقرآن]
كے معنی [يجهر به]
یعنی بلند آواز سے پڑھنا لیے گئے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1473