صحيح البخاري
كِتَاب الْوَكَالَةِ -- کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وَكَالَةُ الشَّرِيكِ الشَّرِيكَ فِي الْقِسْمَةِ وَغَيْرِهَا:
باب: تقسیم وغیرہ کے کام میں ایک ساجھی کا اپنے دوسرے ساجھی کو وکیل بنا دینا۔
وَقَدْ أَشْرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا فِي هَدْيِهِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِقِسْمَتِهَا.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنی قربانی کے جانور میں شریک کر لیا پھر انہیں حکم دیا کہ فقیروں کو بانٹ دیں۔
حدیث نمبر: 2299
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلَالِ الْبُدْنِ الَّتِي نُحِرَتْ وَبِجُلُودِهَا".
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کی، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو میں خیرات کر دوں جنہیں قربان کیا گیا تھا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3099  
´ہدی کے اونٹوں پر جھول ڈالنے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ہدی کے اونٹوں کی نگرانی کا حکم دیا، اور کہا کہ میں ان کی جھولیں اور ان کی کھالیں (غریبوں اور محتاجوں میں) بانٹ دوں، اور ان میں سے قصاب کو کچھ نہ دوں، آپ نے فرمایا: ہم اسے اجرت اپنے پاس سے دیں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3099]
اردو حاشہ:
فوئاد و مسائل:

(1)
جانوروں کوسردی وغیرہ سے بچانے کے لیے ان پر جھول ڈالنی درست ہے۔

(2)
قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور جھولیں صدقہ کردینی چاہیئں۔

(3)
قربانی کے جانور کا گوشت قصاب کو اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں۔

(4)
قربانی کا جانور قصاب سے اجرت دے کر ذبح کروانا جائز ہےجبکہ خود اپنے ہاتھ سےذبح کرنا افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3099   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1166  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم ارشاد فرمایا کہ میں قربانی کے اونٹوں کی نگرانی و حفاظت کروں۔ یہ حکم دیا کہ میں ان کا گوشت اور چمڑا اور جھول کو مساکین و غرباء پر تقسیم کر دوں اور قصاب کو اس سے کچھ بھی نہ دوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1166»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحج، باب لا يعطي الجزار من الهدي شيئًا، حديث:1716، 1717، ومسلم، الحج، باب الصدقة بلحوم الهدايا، وجلودها وجلالها...، حديث:1317.»
تشریح:
1. اس حدیث میں قربانی کے اونٹوں سے مراد حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربان کردہ وہ اونٹ ہیں جنھیں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائے تھے۔
ان کی تعداد ایک سو تھی۔
2.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت‘ اس کا چمڑا اور اس سے متعلق سامان‘ پالان اور رسی وغیرہ سب کچھ خیرات کر دینا چاہیے اور قصاب کو اجرت اس گوشت میں سے نہیں دی جا سکتی۔
اجرت و معاوضہ الگ سے دینا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1166   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2299  
2299. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں قربانی کے ان اونٹوں کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں، جنھیں نحر (ذبح) کیا گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2299]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں گوشت کا ذکر نہیں، مگر حضرت امام بخاری ؒ نے جابر ؓ کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس کو کتاب الشرکۃ میں نکالا ہے۔
اس میں صاف یوں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو قربانی میں شریک کر لیا تھا۔
گویا آنحضرت ﷺ نے ان امور کے لیے حضرت علی ؓ کو وکیل بنایا۔
اسی سے وکالت کا جواز ثابت ہوا جو باب کا مقصد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2299   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2299  
2299. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا کہ میں قربانی کے ان اونٹوں کی جھولیں اور کھالیں صدقہ کردوں، جنھیں نحر (ذبح) کیا گیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2299]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شریک کو وکیل بنانا جائز ہے جیسا کہ وکیل کو کسی کام میں شریک بنانا جائز ہے۔
(2)
اگرچہ اس حدیث میں شریک بنانے کا ذکر نہیں ہے، تاہم دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے حضرت علی ؓ کو اپنی قربانیوں میں شریک کرلیا، پھر انھیں تقسیم کرنے پر مامور فرمایا، یعنی قربانیوں کے گوشت، کھالوں اور جھولوں کو تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی، ان میں سے تریسٹھ اونٹ خود ذبح کیے اور باقی اونٹوں کو ذبح کرنے کے متعلق حضرت علی ؓ کو حکم دیا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218)
، و فتح الباري: 604/4)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2299