صحيح البخاري
كِتَاب الْوَكَالَةِ -- کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وَكَالَةُ الشَّرِيكِ الشَّرِيكَ فِي الْقِسْمَةِ وَغَيْرِهَا:
باب: تقسیم وغیرہ کے کام میں ایک ساجھی کا اپنے دوسرے ساجھی کو وکیل بنا دینا۔
حدیث نمبر: 2300
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ، فَبَقِيَ عَتُودٌ، فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ضَحِّ بِهِ أَنْتَ".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بکریاں ان کے حوالہ کی تھیں تاکہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کو تقسیم کر دیں۔ ایک بکری کا بچہ باقی رہ گیا۔ جب اس کا ذکر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تو قربانی کر لے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3138  
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں عنایت کیں، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لیے تقسیم کر دیا، ایک بکری کا بچہ بچ رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قربانی تم کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3138]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حدیث میں عتود کا لفظ ہےجس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے:
جو بچہ خود چرنے چگنے کے قابل ہوجائےاور ماں کا محتاج نہ رہے۔

(2)
نواب حیدالزمان رحمۃ اللہ علیہ  نے عتود کے معنی ایک سال کا بکری کا بچہ کیے ہیں۔ (ترجمہ حدیث زیر مطالعہ)
ہم نے اپنے ترجمہ کو اسی کو اختیار کیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3138   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1500  
´بھیڑ کے جذع کی قربانی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک «عتود» (بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي» ۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: تم اس کی قربانی خود کر لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
راوی کو شک ہوگیا ہے کہ عتود کہا یا جدی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1500   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2300  
2300. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اس کی تم قربانی کرلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2300]
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی وکالت ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آسکے تو اس کی اپنے موکل سے تحقیق کرلے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2300   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2300  
2300. حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں بکریاں دیں تاکہ وہ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں تقسیم کردیں۔ تقسیم کے بعد بکری کا ایک بچہ باقی رہ گیا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: اس کی تم قربانی کرلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2300]
حدیث حاشیہ:
ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عقبہ بن عامر ؓ کے حوالے بکریاں کیں،قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ قربانی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے،ان میں تقسیم کرنے کے لیے انھیں حکم دیا گیا۔
حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں کہ بکری کے بچے کی تم قربانی کرلو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کا تقسیم میں حصہ تھا اور انھیں تقسیم پر بھی مامور کیا گیا تھا،اس طرح یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ شریک کو وکیل بنایا جاسکتا ہے۔
(فتح الباري: 604/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2300