سنن نسائي
كتاب السهو -- کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
10. بَابُ : التَّشْدِيدِ فِي الاِلْتِفَاتِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کی شناعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1200
أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعَافَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ وَهُوَ ابْنُ مَعْنٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ:" إِنَّ الِالْتِفَاتَ فِي الصَّلَاةِ , اخْتِلَاسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الصَّلَاةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نماز میں ادھر ادھر دیکھنا چھینا جھپٹی ہے جسے شیطان نماز میں اس سے کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1197، ولکن ہذا الحدیث موقوف علی عائشة (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 190  
´نمازی کو ہوشیار اور محتاط رہنے کی تاکید `
«. . . ‏‏‏‏إياك والالتفات في الصلاة،‏‏‏‏ فإنه هلكة،‏‏‏‏ فإن كان لا بد ففي التطوع . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز میں التفات (ادھر ادھر نظر دوڑانے) سے بچنے کی کوشش کرو یہ موجب ہلاکت ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 190]

لغوی تشریح:
«اَلْاِلْتِفَاتِ» دائیں بائیں نظر کرنا۔
«اَلْاِخْتِلَاسُ» کسی چیز کو سلب کرنا۔ جلدی سے کسی سے چیز چھین لینا۔
«إِيَّاكَ» کاف پر فتحہ ہے۔ مرد کو خطاب ہے۔ اور ترمذی میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: بیٹے! نماز میں اپنے آپ کو التفات سے بچاؤ۔۔۔ الخ [جامع الترمذي، الجمعة، باب ما ذكر فى الالتفات فى الصلاة، حديث: 589]
«إِيَّاكَ» منصوب ہے تحذیر کی وجہ سے۔ مطلب یہ ہوا کہ ڈرو اور التفات سے بچو
«هَلَكَةٌ» ہا، لام اور کاف تینوں پر فتحہ ہے۔ معنی ہلاکت کے ہیں کیونکہ اس میں شیطان کی اطاعت ہے اور وہی اس پر برانگیختہ کرتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ انسان کو نقصان اور ضرر پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا حتی کہ نماز میں بھی اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح نماز سے غافل کر دے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم نمازی کی توجہ منتشر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ادھر ادھر نظر پھیرنے کی ترغیب دیتا ہے کہ نمازی نماز کے کسی نہ کسی جزو سے غافل اور بےپروا ہو جائے اور ثواب سے محروم رہ جائے، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو ہوشیار اور محتاط رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔
➋ شدید اور سخت ضرورت کے وقت التفات کی اجازت ہے بشرطیکہ گردن گھومنے نہ پائے، صرف آنکھوں کے کونوں سے دیکھا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 190   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 910  
´نماز میں گردن موڑ کر ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آدمی کے نماز کے ادھر ادھر دیکھنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بندے کی نماز سے شیطان کا اچک لینا ہے (یعنی اس کے ثواب میں سے ایک حصہ اڑا لیتا ہے)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 910]
910۔ اردو حاشیہ:
گردن گھما کر دیکھنا بالکل ناجائز ہے، البتہ اشد ضرورت کے تحت کسی قدر نظر گھما کر دیکھے تو جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 910