سنن نسائي
كتاب السهو -- کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
17. بَابُ : التَّنَحْنُحِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں کھکھارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1213
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الْحَارِثِ الْعُكْلِيِّ، عَنِ ابْنِ نُجَيٍّ , قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ:" كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَدْخَلَانِ: مَدْخَلٌ بِاللَّيْلِ , وَمَدْخَلٌ بِالنَّهَارِ , فَكُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ بِاللَّيْلِ تَنَحْنَحَ لِي".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میرے آنے کے دو وقت تھے، ایک رات میں اور ایک دن میں، جب میں رات میں آپ کے پاس آتا (اور آپ نماز وغیرہ میں مشغول ہوتے) تو آپ میرے لیے کھنکھارتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1212 (ضعیف الإسناد) (سند میں انقطاع ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی کھنکھار کر اندر آنے کی اجازت دیتے، اور بعض نسخوں میں «تنحنح» کے بجائے «سبّح» ہے، اور یہ زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ اس کے بعد والی روایت میں ہے کہ کھنکھارنا عدم اجازت کی علامت تھی، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی دو ہیئت رہی ہو ایک اجازت پر دلالت کرتی رہی ہو، اور دوسری عدم اجازت پر، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 176  
´دوران نماز میں ضرورت کے وقت ایسی آواز نکالنا ...`
«. . . وعن علي قال: كان لي من رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مدخلان فكنت إذا اتيته وهو يصلي تنحنح لي . . .»
. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے میرے دو اوقات تھے جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے تو مجھے مطلع کرنے کے لیے کھنکار دیتے . . . بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب شــروط الصلاة: 176]

لغوی تشریح:
«مَدْخَلَانِ» میم اور خا دونوں پر فتحہ اور درمیان میں واقع دال ساکن ہے۔ آپ کی خدمت میں حاضری کے دو اوقات۔
«تَنَحْنُحِ» حلق میں آواز کو گردش دینا۔ کھنکھارنا۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز میں ضرورت کے وقت ایسی آواز نکالنا جس میں حروف کی ادائیگی نہ ہو نماز کے لیے موجب فساد نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 176