صحيح البخاري
كِتَاب الْوَكَالَةِ -- کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
8. بَابُ إِذَا وَكَّلَ رَجُلٌ أَنْ يُعْطِيَ شَيْئًا وَلَمْ يُبَيِّنْ كَمْ يُعْطِي، فَأَعْطَى عَلَى مَا يَتَعَارَفُهُ النَّاسُ:
باب: ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو کچھ دینے کے لیے وکیل کیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنا دے، اور وکیل نے لوگوں کے جانے ہوئے دستور کے مطابق دے دیا۔
حدیث نمبر: 2309
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرِهِ، يزيد بعضهم على بعض، ولم يبلغه كلهم رجل واحد منهم، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ، إِنَّمَا هُوَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ، فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قُلْتُ: جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: مَا لَكَ؟ قُلْتُ: إِنِّي عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ، قَالَ: أَمَعَكَ قَضِيبٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَعْطِنِيهِ، فَأَعْطَيْتُهُ فَضَرَبَهُ فَزَجَرَهُ فَكَانَ مِنْ ذَلِكَ الْمَكَانِ مِنْ أَوَّلِ الْقَوْمِ، قَالَ: بِعْنِيهِ، فَقُلْتُ: بَلْ، هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ، وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ أَخَذْتُ أَرْتَحِلُ، قَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً قَدْ خَلَا مِنْهَا، قَالَ: فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قُلْتُ: إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْكِحَ امْرَأَةً قَدْ جَرَّبَتْ خَلَا مِنْهَا، قَالَ: فَذَلِكَ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، قَالَ: يَا بِلَالُ اقْضِهِ، وَزِدْهُ، فَأَعْطَاهُ أَرْبَعَةَ دَنَانِيرَ وَزَادَهُ قِيرَاطًا، قَالَ جَابِرٌ: لَا تُفَارِقُنِي زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَكُنِ الْقِيرَاطُ يُفَارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا۔ اتفاق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی (کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مجھے دیدے۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے آگے رہنے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کر دے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کر دے۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے میں خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں (دوسری طرف) جانے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کہاں جا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پا چکے ہیں۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال! ان کی قیمت ادا کر دو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قیراط جابر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2048   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2309  
2309. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ چونکہ میں ایک سست رفتاراونٹ پر سوار تھا جو سب لوگوں سے بالکل پیچھے تھا اس لیے نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: یہ کون ہے: میں نے عرض کیا: جابر بن عبد اللہ ؓ ہوں۔ آپ نے پوچھا: کیا ماجرا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں ایک سست رفتار اونٹ پر سوارہوں۔ آپ نے پوچھا: تمھارے پاس کوئی چھڑی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ مجھے دو۔ میں نے آپ کو چھڑی دی تو آپ نے اونٹ کو رسید کی اور ڈانٹا۔ اب وہ تمام لوگوں سے آگے پہنچ گیا۔ آپ نے فرمایا: یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یہ آپ ہی کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو میں نے اسےچار دینار میں خرید لیا، نیز تمھیں اجازت ہوگی کہ مدینہ طیبہ تک تم اس پر سوار ہو کر جاؤ۔ جب ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2309]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صاف یہ نہیں فرمایا کہ اتنا زیادہ دے دو۔
مگر حضرت بلال ؓ نے اپنی رائے سے زمانہ کے رواج کے مطابق ایک قیراط جھکتا ہوا سونا زیادہ دیا۔
الفاظ فلم یکن القیراط یفارق جراب جابر بن عبداللہ کا ترجمہ بعض نے یوں کیا کہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا۔
امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب حرہ کے دن یزید کی طرف سے شام والوں کا بلوہ مدینہ منورہ پر ہوا تو انہوں نے یہ سونا حضرت جابر ؓ سے چھین لیا تھا۔
حضرت جابر ؓ کے اس عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی اپنے کسی بزرگ کے عطیہ کو یا اس کی اور کسی حقیقی یادگار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
اس حدیث سے آیت قرآنی ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ﴾ کی تفسیر بھی سمجھ میں آئی کہ رسول اللہ ﷺ کسی مسلمان کی ادنی تکلیف کو بھی دیکھنا گوارا نہیں فرماتے تھے۔
آپ نے حضرت جابر ؓ کو جب دیکھا کہ وہ اس سست اونٹ کی وجہ سے تکلیف محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو خود اس کا احساس ہوا۔
اور آپ نے اللہ کا نام لے کر اونٹ پر جو چھڑی ماری اس سے وہ اونٹ تیز رفتار ہو گیا اور حضرت جابر ؓ کی مزید دل جوئی کے لیے آپ نے اسے خرید بھی لیا۔
اور مدینہ تک اس پر سواری کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔
آپ نے حضرت جابر ؓ سے شادی کی بابت بی گفتگو فرمائی۔
معلوم ہوا کہ اس قسم کی گفتگو معیوب نہیں ہے۔
حضرت جابر ؓ کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ تعلیم و تربیت محمدی نے ان کے اخلاق کو کس قدر بلندی بخش دی تھی کہ محض بہنوں کی خدمت کی خاطر بیوہ عورت سے شادی کو ترجیح دی اور باکرہ کو پسند نہیں فرمایا جب کہ عام جوانوں کا رجحان طبع ایسا ہی ہوتا ہے۔
حدیث اور باب میں مطابقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔
مسلم شریف کتاب البیوع میں یہ حدیث مزید تفصیلات کے ساتھ موجود ہے جس پر علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں:
فیه حدیث جابر و هو حدیث مشهور احتج به أحمد ومن وافقه في جواز بیع الدابة و یشترط البائع لنفسه رکوبها یعنی حدیث مذکور جابر کے ساتھ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے موافقین نے دلیل پکڑی ہے کہ جانور کا بیچنا اور بیچنے والے کا اس کی وقتی سواری کے لیے شرط کر لینا جائز ہے۔
امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ یہ جواز اس وقت ہے جب کہ مسافت قریب ہو۔
اور یہ حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔
اسی حدیث جابر کے ذیل میں علامہ نووی ؒدوسری جگہ فرماتے ہیں:
و اعلم ان فی حدیث جابر ہذا فوائد کثیرۃ احداہا:
وَاعْلَمْ أَنَّ فِي حَدِيثِ جَابِرٍ هَذَا فَوَائِدَ كَثِيرَةً إِحْدَاهَا هَذِهِ الْمُعْجِزَةُ الظَّاهِرَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي انْبِعَاثِ جَمَلِ جَابِرٍ وَإِسْرَاعِهِ بَعْدَ إِعْيَائِهِ الثَّانِيَةُ جَوَازُ طَلَبِ الْبَيْعِ مِمَّنْ لَمْ يَعْرِضْ سِلْعَتَهُ لِلْبَيْعِ الثَّالِثَةُ جَوَازُ الْمُمَاكَسَةِ فِي الْبَيْعِ وَسَبَقَ تَفْسِيرُهَا الرَّابِعَةُ اسْتِحْبَابُ سُؤَالِ الرَّجُلِ الْكَبِيرِ أَصْحَابَهُ عَنْ أَحْوَالِهِمْ وَالْإِشَارَةِ عَلَيْهِمْ بِمَصَالِحِهِمْ الْخَامِسَةُ اسْتِحْبَابُ نِكَاحِ الْبِكْرِ السَّادِسَةُ اسْتِحْبَابُ مُلَاعَبَةِ الزَّوْجَيْنِ السَّابِعَةُ فَضِيلَةُ جَابِرٍ فِي أَنَّهُ تَرَكَ حَظَّ نَفْسِهِ مِنْ نِكَاحِ الْبِكْرِ وَاخْتَارَ مَصْلَحَةَ أَخَوَاتِهِ بِنِكَاحِ ثَيِّبٍ تَقُومُ بِمَصَالِحِهِنَّ الثَّامِنَةُ اسْتِحْبَابُ الِابْتِدَاءِ بِالْمَسْجِدِ وَصَلَاةِ رَكْعَتَيْنِ فِيهِ عِنْدَ الْقُدُومِ مِنَ السَّفَرِ التَّاسِعَةُ اسْتِحْبَابُ الدَّلَالَةِ عَلَى الْخَيْرِ الْعَاشِرَةُ اسْتِحْبَابُ ارجاح الميزان فيما يدفعه الحادية عشر أَنَّ أُجْرَةَ وَزْنِ الثَّمَنِ عَلَى الْبَائِعِ الثَّانِيَةَ عَشْرَةَ التَّبَرُّكُ بِآثَارِ الصَّالِحِينَ لِقَوْلِهِ لَا تُفَارِقُهُ زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّالِثَةَ عَشْرَةَ جَوَازُ تَقَدُّمِ بَعْضِ الْجَيْشِ الرَّاجِعِينَ بِإِذْنِ الْأَمِيرِ الرَّابِعَةَ عَشْرَةَ جَوَازُ الْوَكَالَةِ فِي أَدَاءِ الْحُقُوقِ وَنَحْوِهَا وَفِيهِ غَيْرُ ذَلِكَ مِمَّا سبق والله أعلم (نووی)
یعنی یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے ایک تو اس میں ظاہری معجزہ نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل سے تھکے ہوئے اونٹ کو چست و چالاک بنا دیا۔
اور وہ خوب چلنے لگ گیا۔
دوسرا امر یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص اپنا سامان نہ بیچنا چاہے تو بھی اس سے اسے بیچنے کے لیے کہا جاسکتا ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ بیچنا نہیں چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو یہ اونٹ بیچ دینے کے لیے فرمایا۔
تیسرے بیع میں شرط کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا۔
چوتھے یہ استحباب ثابت ہوا کہ بڑا آدمی اپنے ساتھیوں سے ان کے خانگی احوال دریافت کرسکتا ہے اور حسب مقتضائے وقت ان کے فائدے کے لیے مشورہ بھی دے سکتا ہے۔
پانچویں کنواری عورت سے شادی کرنے کا استحباب ثابت ہوا۔
چھٹے میاں بیوی کا خوش طبعی کرنے کا جواز ثابت ہوا۔
ساتویں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ انہوں نے اپنی بہنوں کے فائدے کے لیے اپنی شادی کے لیے ایک بیوہ عورت کو پسند کیا۔
آٹھواں یہ امر بھی ثابت ہوا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جانا اور دو رکعت شکرانہ کی ادا کرنا مستحب ہے۔
نواں امر یہ ثابت ہوا کہ نیک کام کرنے کے لیے رغبت دلانا بھی مستحب ہے۔
دسواں امر یہ ثابت ہوا کہ کسی حق کا ادا کرتے وقت ترازو کو جھکا کر زیادہ (یابصورت نقد کچھ زیادہ)
دینا مستحب ہے۔
گیارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ تولنے والے کی اجرت بیچنے والے کے سر ہے۔
بارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے مطابق زیادہ پایا ہوا سونا اپنے پاس عرصہ دراز تک محفوظ رکھا۔
تیرہواں امر یہ بھی ثابت ہوا بعض اسلامی لشکر کو مقدم رکھا جاسکتا ہے جو امیر کی اجازت سے مراجعت کرنے والے ہوں۔
چودہواں امر ادائے حقوق کے سلسلہ میں وکالت کرنے کا جواز ثابت ہوا اور بھی کئی امور ثابت ہوئے جو گزر چکے ہیں۔
آثار صالحین کو تبرک کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا، یہ نازک معاملہ ہے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وہ حقیقتاً صحیح طور پر آثار صالحین ہوں، جیسا کہ حضرت جابر ؓ کو یقینا معلوم تھا کہ یہ قیراط مجھ کو آنحضرت ﷺ نے خود از راہ کرام فالتو دلایا ہے ایسا یقین کامل حاصل ہونا ضروری ہے ورنہ غیر ثابت شدہ اشیاءکو صالحین کی طرف منسوب کرکے ان کو بطور تبرک رکھنا یہ کذب اور افتراءبھی بن سکتا ہے۔
اکثر مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے کچھ بال محفوظ کرکے ان کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کردیا ہے۔
پھر ان سے تبرک حاصل کرنا شرک کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔
ایسی مشکوک چیزوں کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرنا بڑی ذمہ داری ہے۔
اگر وہ حقیقت کے خلاف ہیں تو یہ منسوب کرنے والے زندہ دوزخی بن جاتے ہیں۔
کیوں کہ آنحضرت ﷺ نے ایسا افترا کرنے والوں کو زندہ دوزخی بتلایا ہے بصورت دیگر اگر ایسی چیز تاریخ سے صحیح ثابت ہے تو اسے چومنا چاٹنا، اس کے سامنے سر جھکانا، اس پر نذر و نیاز چڑھانا اس کی تعظیم میں حد اعتدال سے آگے گزر جانا یہ جملہ امور ایک مسلمان کو شرک جیسے قبیح گناہ میں داخل کردیتے ہیں۔
حضرت جابر ؓ نے بلاشبہ اس کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھا۔
مگر یہ ثابت نہیں کہ اس کو چوما چاٹا ہو، اسے نذ ر نیاز کا حق دار گردانا ہو۔
اس پر پھول ڈالے ہوں یا اس کو وسیلہ بنایا ہو۔
ان میں سے کوئی بھی امر ہرگز ہرگز حضرت جابر ؓ سے ثابت نہیں ہے پس اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کی ضرورت ہے۔
شرک ایک بدترین گناہ ہے اور باریک بھی اس قدر کہ کتنے ہی دینداری کا دعوی کرنے والے امور شرک کے مرتکب ہو کر عند اللہ دوزخ میں خلود کے مستحق بن جاتے ہیں۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو ہر قسم کے شرک خفی و جلی، صغیر و کبیر سے محفوظ رکھے، آمین۔
ثم آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2309   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2309  
2309. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا۔ چونکہ میں ایک سست رفتاراونٹ پر سوار تھا جو سب لوگوں سے بالکل پیچھے تھا اس لیے نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو فرمایا: یہ کون ہے: میں نے عرض کیا: جابر بن عبد اللہ ؓ ہوں۔ آپ نے پوچھا: کیا ماجرا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں ایک سست رفتار اونٹ پر سوارہوں۔ آپ نے پوچھا: تمھارے پاس کوئی چھڑی ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: وہ مجھے دو۔ میں نے آپ کو چھڑی دی تو آپ نے اونٹ کو رسید کی اور ڈانٹا۔ اب وہ تمام لوگوں سے آگے پہنچ گیا۔ آپ نے فرمایا: یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یہ آپ ہی کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اسے میرے ہاتھ بیچ دو میں نے اسےچار دینار میں خرید لیا، نیز تمھیں اجازت ہوگی کہ مدینہ طیبہ تک تم اس پر سوار ہو کر جاؤ۔ جب ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2309]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ؓ کو صاف طور پر نہیں بتایا تھا کہ اتنا زیادہ دے مگر حضرت بلال ؓ نے اپنی رائے سے زمانے کے دستور کے مطابق ایک قیراط زائد سونا دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے درمیان متعارف چیز کی حیثیت منصوص علیہ کی سی ہے۔
اسی طرح اگر کوئی کسی کو صدقہ دینے کا حکم دے تو وہ اگر لوگوں کے تعارف اور دستور کے مطابق دے تو جائز ہے اگر دستور سے زیادہ دے گا تو وہ مالک کی رضامندی پر موقوف ہے۔
اگر وہ راضی ہوگیا تو درست ہے بصورت دیگر زائد مقدار واپس لینے کا مجاز ہوگا۔
(2)
حضرت جابر ؓ کے عمل سے ثابت ہوا کہ کوئی اپنے بزرگ کے عطیہ یا کسی حقیقی یاد گار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو جائز ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2309