سنن نسائي
كتاب السهو -- کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
20. بَابُ : الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں بات کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1220
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ:" كَانَ الرَّجُلُ يُكَلِّمُ صَاحِبَهُ فِي الصَّلَاةِ بِالْحَاجَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , حَتَّى نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238 , فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (شروع میں) آدمی نماز میں اپنے ساتھ والے سے ضرورت کی باتیں کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين» محافظت کرو نمازوں کی، اور بیچ والی نماز کی، اور اللہ کے لیے خاموش کھڑے رہو نازل ہوئی تو (اس کے بعد سے) ہمیں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا (البقرہ: ۲۳۸)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمل فی الصلاة 2 (1200)، تفسیر البقرة 42 (4534)، صحیح مسلم/المساجد 7 (539)، سنن ابی داود/الصلاة 178 (949)، سنن الترمذی/فیہ 181 (405)، تفسیر البقرة (2986)، (تحفة الأشراف: 3661)، مسند احمد 4/368 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 173  
´نماز میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت ممنوع ہے`
«. . . وعن زيد بن ارقم انه قال: إن كنا لنتكلم في الصلاة على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يكلم احدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت (حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين) فامرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام . . .»
. . . سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دوران نماز ہم ایک دوسرے سے بات چیت کر لیا کرتے اور اپنی ضرورت و حاجت ایک دوسرے سے بیان کر دیتے تھے تاآنکہ «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين» آیت نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور نماز میں گفتگو اور کلام کرنے سے منع کر دیا گیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 173]

لغوی تشریح:
«إِنْ كُنَّا» یہ «إِنْ» مخففہ من المثقلہ ہے، یعنی «إِنَّ» سے «إِنْ» بنایا گیا ہے۔ اور اس کا اسم محذوف ہے، یعنی «إِنَّا» یا «إِنَّهُ» ۔ اور «كُنَّا» اس کی خبر ہے۔
«وَالصَّلَاةِ الْوُسْطٰي» واؤ اس جگہ تخصیص کے لیے ہے، یعنی خاص طور پر صلاۃ وسطی کی حفاظت کرو۔ اور صحیح ترین قول کے مطابق اس سے نماز عصر مراد ہے۔
«قَانِتِينَ» ڈرتے، سہمے اور خاموش رہتے ہویے۔ قنوت کے متعدد معانی ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس سے سکوت کے معنی لیے ہیں۔ انہوں نے یہ معنی قراین کی بنا پر اخذ کیے ہیں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کی روشنی میں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز میں ہر قسم کی گفتگو اور بات چیت ممنوع ہے۔
➋ آغاز اسلام میں کلام کی اجازت تھی جسے بعد میں ممنوع قرار دے دیا گیا۔

راویٔ حدیث:
(زید بن ارقم رضی اللہ عنہ) انصار کے قبیلۂ خزرج میں سے ہیں، اس لیے انصاری خزرجی کہلائے۔ ان کی کنیت ابوعمرو ہے۔ پہلی مرتبہ غزوہ خندق میں شامل ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سترہ غزوات میں شریک ہوئے۔ معرکہ صفین کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے بلکہ ان کے مخصوص اصحاب میں شامل تھے۔ کوفہ میں سکونت اختیار کی اور 66 ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 173   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 949  
´نماز میں بات چیت منع ہے۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے جو چاہتا نماز میں اپنے بغل والے سے باتیں کرتا تھا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے چپ چاپ کھڑے رہو (سورۃ البقرہ: ۲۳۸) تو ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 949]
949۔ اردو حاشیہ:
نماز میں گفتگو حرام ہے۔ الا یہ کہ خطا اور نسیان سے کوئی لفظ زبان سے نکل جائے تو معاف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 949   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1220  
´نماز میں بات کرنے کا بیان۔`
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (شروع میں) آدمی نماز میں اپنے ساتھ والے سے ضرورت کی باتیں کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين» محافظت کرو نمازوں کی، اور بیچ والی نماز کی، اور اللہ کے لیے خاموش کھڑے رہو نازل ہوئی تو (اس کے بعد سے) ہمیں خاموش رہنے کا حکم دے دیا گیا (البقرہ: ۲۳۸)۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1220]
1220۔ اردو حاشیہ:
ضرورت کی بات مثلاً: سلام کا جواب، چھینک پر دعا، نماز سے متعلقہ وضاحت وغیرہ، نہ کہ گھریلو باتیں یا کاروباری باتیں۔
افضل نماز حدیث: 473 میں گزر چکا ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ اس کے متعلق اور اقوال بھی ہیں مگر راجح قول یہی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 6/157-162، حدیث: 473]
خاموش رہنے کا حکم یعنی اپنے ساتھی سے باتیں کرنے سے، نہ کہ مطلقاً کہ اذکار و اور ادیا قرأت فاتحہ بھی ممنوع ہو جائیں۔ ایسی تو کوئی نماز ہی نہیں جس میں کچھ نہ پڑھا جائے اور مکمل خاموشی ہو۔ ہاں! جماعت کی صورت میں جہر سے روکا گیا ہے۔
➍ شریعت میں نسخ ثابت ہے۔
➎ کلام کسی بھی قسم کا ہو اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1220   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 405  
´نماز میں بات چیت کے منسوخ ہونے کا بیان۔`
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نماز میں بات چیت کر لیا کرتے تھے، آدمی اپنے ساتھ والے سے بات کر لیا کرتا تھا، یہاں تک کہ آیت کریمہ: «‏وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو نازل ہوئی تو ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 405]
اردو حاشہ:
1؎:
رسول اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق مومن سے بھول چوک معاف ہے،
بعض لوگوں نے یہ شرط لگائی ہے کہ بشرطیکہ تھوڑی ہو ہم کہتے ہیں ایسی حالت میں آدمی تھوڑی بات ہی کر پاتا ہے کہ اسے یاد آ جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 405