سنن نسائي
كتاب السهو -- کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
53. بَابُ : نَوْعٌ آخَرُ
باب: صلاۃ (درود و رحمت) کی ایک اور قسم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1294
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ وَهُوَ ابْنُ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , السَّلَامُ عَلَيْكَ قَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكَ؟ قَالَ:" قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ , وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہم جان چکے ہیں، پر مگر آپ پر صلاۃ (درود و رحمت) کیسے بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس طرح کہو: «اللہم صل على محمد عبدك ورسولك كما صليت على إبراهيم وبارك على محمد وآل محمد كما باركت على إبراهيم» اے اللہ! درود و رحمت بھیج اپنے بندے اور رسول محمد پر جس طرح تو نے ابراہیم پر بھیجا ہے، اور برکتیں نازل فرما محمد اور آل محمد پر ویسے ہی جیسے تو نے ابراہیم پر نازل فرمائی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب 10 (4798)، الدعوات 32 (6358)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 25 (903)، (تحفة الأشراف: 4093)، مسند احمد 3/47 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث903  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود (نماز) بھیجنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر سلام بھیجنا تو ہمیں معلوم ہو گیا، لیکن درود کیسے بھیجیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہو: «اللهم صل على محمد عبدك ورسولك كما صليت على إبراهيم وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم» اے اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر رحمت نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر رحمت نازل فرمائی ہے، اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے اہل و عیال پہ برکت اتار جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر اتاری ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 903]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾  (الأحزاب: 56)
بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی کریمﷺ پر رحمت بھیجتے ہیں۔
اے مومنو! تم بھی ان پر درود پڑھو اور سلام عرض کرو۔
صحابہ رضوان للہ عنہم اجمعین نے اس آیت کی وضاحت دریافت فرمائی۔
تو رسول اللہ ﷺنے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا۔

(2)
سلام کہنے کا طریقہ نماز کے باہر تو وہی ہے۔
جو عام مسلمانوں کا باہمی سلام ہے۔
صحابہ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔
تو اس معروف طریقے سے سلام عرض کرتے تھے۔
نماز کے اندر سلام کا طریقہ پچھلے باب میں بیان ہوچکا۔
اس لئے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے کہا کہ سلام ہمیں معلوم ہے۔

(3)
صلاۃ کا مطلب دعا رحمت اور درود ہے۔
نماز کو بھی صلاۃ اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ دعائوں پر مشتمل ہے مومنوں اور فرشتوں کی طرف سے نبی پردرود بھی ایک دعا ہے۔
جیسے کہ درود شریف کے الفاظ سے واضح ہے۔
اللہ کی طرف سے نبی کریمﷺ پر صلاۃ (درود)
کا مطلب انسانوں اور فرشتوں کی دعا قبول کرکے اپنے نبی ﷺ پر رحمت نازل کرنا اور اس کے درجات بلند کرنا ہے۔

(4)
درود کا حکم ہونے پر صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے اپنی طرف سے مناسب الفاظ جمع کرکے دعا نہیں بنائی۔
بلکہ رسول اللہﷺ سے اس کا طریقہ معلوم کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اذکار کے الفاظ وہی درست ہوتے ہیں۔
جو قرآن وحدیث سے ثابت ہوں۔
ان الفاظ میں کمی بیشی کرنا یا اپنے پا س سے ا ذکار بنا لینا درست نہیں۔
نہ ان خود ساختہ اذکار کا کوئی ثواب ہے۔

(5)
آل سے عام طور پر اولاد مراد لی جاتی ہے لیکن شریعت کی اصطلاح میں آل سے مراد وہ سب لوگ ہوتے ہیں۔
جو کسی عظیم شخصیت سے محبت رکھنے والے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں۔
اسی طرح کسی دنیاوی سردار کے ساتھی اور متبعین کو بھی اس کی آل کہا جاسکتا ہے۔
جیسے کہ قران مجید میں آل فرعون کے الفاظ وارد ہیں۔
حالانکہ فرعون کی کوئی صلبی اولاد نہ تھی۔
اسی وجہ سے اس نے حضرت موسیٰ ؑ کو بیٹے کے طور پر پالنا منظور کرلیا تھا۔

(6)
درود شریف کے مختلف الفاظ صحیح احادیث میں وارد ہیں۔
ان میں سے کسی بھی صحیح روایت کے مطابق درود شریف پڑھ لینا درست ہے۔
اس سلسلے میں بعض روایات اسی باب میں آ رہی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 903