صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ -- کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
3. بَابُ اقْتِنَاءِ الْكَلْبِ لِلْحَرْثِ:
باب: کھیتی کے لیے کتا پالنا۔
حدیث نمبر: 2323
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ أَبِي زُهَيْرٍ رَجُلًا مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنِ اقْتَنَى كَلْبًا لَا يُغْنِي عَنْهُ زَرْعًا وَلَا ضَرْعًا، نَقَصَ كُلَّ يَوْمٍ مِنْ عَمَلِهِ قِيرَاطٌ". قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے، ان سے سائب بن یزید نے بیان کیا کہ سفیان بن زہیر نے ازدشنوہ قبیلے کے ایک بزرگ سے سنا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ جس نے کتا پالا، جو نہ کھیتی کے لیے ہے اور نہ مویشی کے لیے، تو اس کی نیکیوں سے روزانہ ایک قیراط کم ہو جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں ہاں! اس مسجد کے رب کی قسم! (میں نے ضرور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے)۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 596  
´بے مقصد کتے رکھنا جائز نہیں ہے`
«. . . 518- مالك عن يزيد بن خصيفة أن السائب بن يزيد أخبره أنه سمع سفيان بن أبى زهير، وهو رجل من أزد شنوءة من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم، يحدث ناسا معه عند باب المسجد فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من اقتنى كلبا لا يغني عنه زرعا ولا ضرعا نقص من عمله كل يوم قيراط قال: أنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: أى ورب هذا المسجد. . . .»
. . . ازدشنوءہ (قبیلے) کے ایک صحابی سیدنا سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ مسجد کے دروازے کے پاس لوگوں سے حدیثیں بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص کھیت اور مویشیوں کے بغیر کتا پالے تو اس کے عمل میں سے روزانہ ایک قیراط کی کمی ہوتی ہے۔ (سیدنا السائب بن یذید رضی اللہ عنہ نے) کہا: کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے (سیدنا سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ نے) فرمایا: جی ہاں! اس مسجد کے رب کی قسم! (میں نے سنا ہے)۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 596]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2323، ومسلم 1576، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ کھیت، مویشیوں اور شکاری کتے کے علاوہ کوئی کتا پالنا جائز نہیں ہے۔
➋ ضرورت کے وقت سچی قسم کھانا جائز ہے۔
➌ جس طرح اعمالِ صالحہ سے نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اسی طرح گناہوں اور شریعت کی مخالفت سے نیکیاں ضائع بھی ہو جاتی ہیں۔
➍ نیز دیکھئے [الموطأ 256، البخاري 5482، ومسلم 1574/50]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 518   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2323  
2323. حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ سے روایت ہے جو قبیلہ ازدشنوءہ سے ہیں اور انھیں نبی کریم ﷺ کی صحبت حاصل ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے: جس نے کتا پالا جو کھیتی باڑی اور ریوڑ کے لیے نہ ہوتو اس کے عمل سے ہر روز ایک قیراط ثواب کم ہوتا رہتا ہے۔ (راوی حدیث سائب بن یزید کہتے ہیں کہ) میں نے(ان سے) کہا: واقعی تم نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟ توا نھوں نے کہا: جی ہاں، مجھے اس مسجد کے رب کی قسم! [صحيح بخاري، حديث نمبر:2323]
حدیث حاشیہ:
قیراط یہاں عنداللہ ایک مقدار معلوم ہے۔
مراد یہ کہ بے حد نیکیاں کم ہوجاتی ہیں جس کی وجوہ بہت ہیں۔
ایک تو یہ کہ ایسے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے، دوسرے یہ کہ ایسا کتا گزرنے والوں اور آنے جانے والے مہمان پر حملہ کے لیے دوڑتا ہے جس کا گناہ کتا پالنے والے پر ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ وہ گھر کے برتنوں کو منہ ڈال ڈال کر ناپاک کرتا رہتا ہے۔
چوتھے یہ کہ وہ نجاستیں کھا کھا کر گھر پر آتا ہے اور بدبو اور دیگر امراض اپنے ساتھ لاتا ہے اور بھی بہت سے وجوہ ہیں۔
اس لیے شریعت اسلامی نے گھر میں بے کار کتا رکھنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی ہے۔
شکاری کتے اور تربیت دیئے ہوئے دیگر محافظ کتے اس سے الگ ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2323   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2323  
2323. حضرت سفیان بن ابو زہیر ؓ سے روایت ہے جو قبیلہ ازدشنوءہ سے ہیں اور انھیں نبی کریم ﷺ کی صحبت حاصل ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ فرماتے تھے: جس نے کتا پالا جو کھیتی باڑی اور ریوڑ کے لیے نہ ہوتو اس کے عمل سے ہر روز ایک قیراط ثواب کم ہوتا رہتا ہے۔ (راوی حدیث سائب بن یزید کہتے ہیں کہ) میں نے(ان سے) کہا: واقعی تم نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟ توا نھوں نے کہا: جی ہاں، مجھے اس مسجد کے رب کی قسم! [صحيح بخاري، حديث نمبر:2323]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کتا رکھنے کے جواز سے کھیتی باڑی کے جواز کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
کتا رکھنا منع ہے، لہٰذا جب کھیتی باڑی کی وجہ سے اس کا پالنا اور رکھنا جائز ہے تو کم ازکم کھیتی باڑی مباح تو ضرور ہوگی۔
(2)
اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ کتا رکھنے والے کے اعمال کا ثواب کم ہوتا رہتا ہے، اس کمی کے کئی ایک اسباب ہیں، مثلاً:
٭ کتا رکھنے سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔
٭ اس سے مسافروں کو تکلیف پہنچتی ہے۔
٭ کثرت نجاسات کھانے کی وجہ سے یہ بدبو کا باعث ہے۔
٭ بعض کتوں کو شیطان کہا گیا ہے۔
٭ اہل خانہ کی غفلت کی وجہ سے برتنوں کو سونگھتا پھرتا ہے اور انھیں پلید کردیتا ہے۔
لیکن وہ کتا مستثنیٰ ہے جس سے کوئی نفع ہو۔
مصلحت کو اس کے فساد پر ترجیح ہوگی۔
کھیتی، ریوڑ کی حفاظت اور شکار کے لیے کتے تو قدیم زمانے سے رکھے جاتے ہیں۔
دور حاضر میں تفتیشی کتے بھی رکھے جاتے ہیں، فوج میں سراغ رسانی کے لیے انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک شوقیہ اور فیشن کے طور پر جو کتے رکھے جاتے ہیں وہ مذکورہ وعید کی زد میں آتے ہیں۔
والله أعلم. قیراط سے کیا مراد ہے؟ اس کی صحیح مقدار تو اللہ ہی جانتا ہے، البتہ ایک تصور دلایا گیا ہے کہ ایسا کام کرنے سے ثواب میں اتنی کمی ہوجائے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2323