سنن نسائي
كتاب الجمعة -- کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
15. بَابُ : الأَذَانِ لِلْجُمُعَةِ
باب: جمعہ کی اذان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1394
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ أَخْبَرَهُ، قَالَ:" إِنَّمَا أَمَرَ بِالتَّأْذِينِ الثَّالِثِ عُثْمَانُ حِينَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ، وَلَمْ يَكُنْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ مُؤَذِّنٍ وَاحِدٍ، وَكَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تو تیسری اذان کا حکم عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا تھا جب اہل مدینہ زیادہ ہو گئے تھے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف ایک ہی مؤذن تھا، اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا تھا۔

تخریج الحدیث: «أنظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1135  
´جمعہ کے دن اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک ہی مؤذن تھے ۱؎، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) نکلتے تو وہ اذان دیتے، اور جب منبر سے اترتے تو اقامت کہتے، ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں بھی ایسا ہی تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگ زیادہ ہو گئے، تو انہوں نے زوراء نامی ۲؎ بازار میں ایک مکان پر، تیسری اذان کا اضافہ کر دیا، چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ (خطبہ دینے کے لیے) نکلتے تو مؤذن (دوبارہ) اذان دیتا، اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتا ۳؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1135]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خطبہ شروع ہونے سے پہلے جو اذان کہی جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں جمعے کے لئے صرف وہی اذان ہوتی تھی۔
پھر نماز شروع کرتے وقت اقامت کہی جاتی تھی۔
جسے دوسری اذان کا نام دیا گیا۔
ان دو اذانوں (اذان اور اقامت)
کے علاوہ جو اذان ہے۔
اسے یہاں تیسری اذان کہا گیا ہے کیونکہ وہ ان دونوں کے بعد شروع ہوئی اور یہ وہ اذان ہے۔
جو خطبہ شروع ہونے سے کافی پہلے کہی جاتی ہے۔
تاکہ لوگ جمعے کی تیاری کرکے بروقت مسجد میں پہنچ سکیں۔

(2)
فجر کی اذان سے پہلے بھی ایک اور اذان کہی جاتی ہے۔
جسے عرف عام میں تہجد کی اذان کہتے ہیں۔
اس کی حکمت بھی یہی ہے کہ مسلمان فجر کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائیں تاکہ ضروری حاجات سے فارغ ہوکر وضو وغیرہ کرکے بروقت فجر کی نماز کےلئے مسجد میں پہنچ سکیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی اس پہلی اذان پر قیاس کرتے ہوئے جمعے کی پہلی اذان شروع کی۔
کیونکہ جسطرح فجر سے پہلے کا وقت غفلت کا ہوتا ہے۔
اسی طرح جمعےسے پہلے کا وقت بھی مصروفیت کیوجہ سے ایک طرح غفلت کا وقت ہی ہوتا ہے اس طرح جمعے سے پہلے کا وقت بھی مصروفیت کی وجہ سے ایک طرح سے غفلت کا وقت ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا وقت سے پہلے ہی توجہ دلانے اور ہوشیار کرنے کے لئے اذان کہی جاتی ہے۔

(3)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعے کی پہلی اذان مسجد سے باہر بازار میں کہلوائی تاکہ زیادہ لوگ متوجہ ہوسکیں۔
آج کے دور میں لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے مسجد کے اندر کہی ہوئی اذان سے بھی یہی مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔
اس لئے اس اذان کامسجد سے باہر ہونا ضروری نہیں۔

(4)
جمعے کی پہلی اذان خلفائے راشدین رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت ہے۔
اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا تھا۔
میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت اختیار کرو (سنن ابن ماجه حدیث: 42)
 سنت نبوی ﷺ کےمطابق صرف ایک اذان کہنا یا خلیفہ راشد رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت کے مطابق دو اذانیں کہنا دونوں طرح جائز ہے۔
تاہم سنت نبوی ﷺ کے مطابق ایک ہی اذان کہنا زیادہ بہتر ہے البتہ بعض اہل علم کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر اور گھڑیوں کے عام ہونے کی وجہ سے موجودہ دور میں پہلی اذان کا جواز بھی باقی نہیں رہتا۔
تاہم جہاں یہ چیزیں نہ ہوں۔
تو وہاں ضرورت کے مطابق اس پر عمل کرنا جائز ہوگا۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1135