صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ -- کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
6. بَابُ قَطْعِ الشَّجَرِ وَالنَّخْلِ:
باب: میوہ دار درخت اور کھجور کے درخت کاٹنا۔
وَقَالَ أَنَسٌ: أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّخْلِ فَقُطِعَ.
اور انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے درختوں کے متعلق حکم دیا اور وہ کاٹ دیئے گئے۔
حدیث نمبر: 2326
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّهُ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ"، وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ: وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ ہم سے جویریہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اور حسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی (قریش) کے سرداروں پر (غلبہ کو) بویرہ کی آگ نے آسان بنا دیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جا رہی تھی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2844  
´دشمن کی سر زمین کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنو نضیر کے کھجور کا باغ جلا دیا، اور کاٹ ڈالا، اس باغ کا نام بویرہ تھا، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نازل ہوا: «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة» یعنی تم نے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جنہیں تم نے ان کی جڑوں پہ باقی رہنے دیا یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2844]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
یہودیوں نے نبی اکرمﷺ سے معاہدہ کیا تھا کہ کفار مکہ کے خلاف مسلمانوں کی مدد کریں گے لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور قبیلہ بنو نضیر نے نبی اکرم ﷺ کو شہید کرنے کی سازش بھی کی۔
اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان پر لشکر کشی کی۔
وہ کچھ عرصہ اپنے قلعوں میں محصور رہے لیکن آخر جان بخشی کی صورت میں جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔

(2)
اس محاصرے کے دوران میں مسلمانوں نے بنو نضیر کے کچھ درخت کاٹ ڈالے اور کچھ جلادیے تاکہ دشمنوں کی آڑ ختم ہو اور وہ اپنے باغوں کو اجڑتا دیکھ کر مقابلے کے لیے میدان میں آئیں۔

(3)
رسول اللہ ﷺ کے افعال اور صحابہ کے وہ افعال جو رسول اللہﷺکی اجازت سے کیےگئےہوں وہ شرعی طور پر جواز کی دلیل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2844   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1098  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نصیر کے کھجوروں کے درخت نذر آتش کروا دیئے اور کٹوا دیئے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1098»
تخریج:
«أخرجه البخاري، المغازي، باب حديث بني النضير...، حديث:4031، مسلم، الجهاد والسير، باب جواز قطع اشجار الكفار و تحريقها، حديث:1746.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ناگزیر جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلانا یا کٹوانا جائز ہے۔
مگر عام حالات میں بلا ضرورت انھیں کاٹنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1552  
´دوران جنگ کفار و مشرکین کے گھر جلانے اور ویران کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درخت جلوا اور کٹوا دیئے ۱؎، یہ مقام بویرہ کا واقعہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها قائمة على أصولها فبإذن الله وليخزي الفاسقين» (مسلمانو!)، (یہود بنی نضیر کے) کھجوروں کے درخت جو کاٹ ڈالے ہیں یا ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا اور اپنے تنوں پر ہی ان کو کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا اور اللہ عزوجل کو منظور تھا کہ وہ نافرمانوں کو ذلیل کرے (الحشر: ۵)۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1552]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگی ضرورت کی بنا پر پھلدار درختوں کو جلوانا اور کٹوانا جائز ہے،
لیکن بلاضرورت عام حالات میں انہیں کاٹنے سے بچنا چاہئے۔

2؎:
یعنی جب اسلامی لشکر کے لیے کچھ ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ درختوں کے جلانے اور مکانوں کے ویران کرنے کے سوا ان کے لیے دوسرا کوئی راستہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ایسا کرناجائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1552   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2615  
´دشمنوں کے کھیت اور باغات کو آگ لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے کھجوروں کے باغات جلا دیے اور درختوں کو کاٹ ڈالا (یہ مقام بویرہ میں تھا) تو اللہ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی «ما قطعتم من لينة أو تركتموها» کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے، یا اپنی جڑوں پر انہیں قائم رہنے دیا، یہ سب اللہ کے حکم سے تھا (سورۃ الحشر: ۵)۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2615]
فوائد ومسائل:
جنگی ضرورت اور مصلحت کے تحت آگ لگانا یا مکانات گرانا جائز ہے۔
محض فساد پھیلانے کی نیت سے جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2615   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2326  
2326. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو جلانے اور کاٹنے کا حکم دیا۔ جس باغ کے درخت کاٹے گئے تھے اس کانام "بویرہ" تھا۔ اس کے متعلق حضرت حسان بن ثابت ؓ نے ایک شعر کہا ہے: بنی لوی کے سرداروں کے لیے آسان ہوگیا تھا کیونکہ بویرہ نامی باغ میں آگ شعلے پھینک رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2326]
حدیث حاشیہ:
بنی لوی قریش کو کہتے ہیں۔
اور سراۃ کا ترجمہ عمائد اور معززین۔
بویرہ ایک مقام کا نام ہے جہاں بنی نضیر یہودیوں کے باغات تھے۔
ہوا یہ تھا کہ قریش ہی کے لوگ اس تباہی کے باعث ہوئے۔
کیوں کہ انہوں نے بنی قریظہ اور بنی نضیر کو بھڑکا کر آنحضرت ﷺ سے عہد شکنی کرائی۔
بعض نے کہا آپ نے یہ درخت اس لیے جلوائے کہ جنگ کے لیے صاف میدان کی ضرورت تھی تاکہ دشمنوں کو چھپ کر رہنے کا اور کمین گاہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ مل سکے۔
بحالت جنگ بہت سے امور سامنے آتے ہیں۔
جن میں قیادت کرنے والوں کو بہت سوچنا پڑتا ہے۔
کھیتوں اور درختوں کا کاٹنا اگرچہ خود انسانی اقتصادی نقصان ہے مگر بعض شدید ضرورتوں کے تحت یہ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
آج کے نام نہاد مہذب لوگوں کو دیکھو گے کہ جنگ کے دنوں میں وہ کیا کیا حرکات کرجاتے ہیں۔
بھارت کے غدر 1857ءمیں انگریزوں نے جو مظالم یہاں ڈھائے وہ تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔
جنگ عظیم میں یورپی اقوام نے کیا کیا حرکتیں کیں۔
جن کے تصور سے جسم پر رلرزہ طاری ہو جاتا ہے اور آج بھی دنیا میں اکثریت اپنی اقلتیوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے وہ دنیا پر روشن ہے۔
بہرحال حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2326   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2326  
2326. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنو نضیر کی کھجوروں کو جلانے اور کاٹنے کا حکم دیا۔ جس باغ کے درخت کاٹے گئے تھے اس کانام "بویرہ" تھا۔ اس کے متعلق حضرت حسان بن ثابت ؓ نے ایک شعر کہا ہے: بنی لوی کے سرداروں کے لیے آسان ہوگیا تھا کیونکہ بویرہ نامی باغ میں آگ شعلے پھینک رہی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2326]
حدیث حاشیہ:
(1)
بنو لؤی سے مراد قریش کے اکابر ہیں۔
بنو نضیر نے عین موقع پر غداری کی تھی، اس لیے جنگی مصلحت کے پیش نظر ان کے پھل دار درختوں کو کاٹا گیا اور کچھ کو جلا دیا گیا۔
اگرچہ بنو لؤی اور بنو نضیر میں معاہدہ تھا کہ مصیبت کے وقت وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے لیکن اس مصیبت میں بنو لؤی ان کی کچھ مدد نہ کر سکے بلکہ غداری کی وجہ سے سزا کے طور پر خود بنو لؤی نے ان کے باغات جلائے اور کھجوروں کے درخت کاٹے۔
یہ کام ان کے لیے بالکل آسان تھا کیونکہ وہاں کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہیں تھا۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب دشمن کے درخت کاٹنے میں مصلحت ہو تو ایسے حالات میں کھجوروں اور دوسرے پھل دار درختوں کو کاٹنا جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2326