سنن نسائي
كتاب الكسوف -- کتاب: (چاند، سورج) گرہن کے احکام و مسائل
6. بَابُ : الأَمْرِ بِالنِّدَاءِ لِصَلاَةِ الْكُسُوفِ
باب: سورج گرہن کی نماز کے لیے اعلان کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1466
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي أَنِ الصَّلَاةَ جَامِعَةً فَاجْتَمَعُوا وَاصْطَفُّوا، فَصَلَّى بِهِمْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو حکم دیا، تو اس نے ندا دی کہ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو سب جمع ہو گئے، اور انہوں نے صف بندی کی تو آپ نے انہیں چار رکوع، اور چار سجدوں کے ساتھ، دو رکعت نماز پڑھائی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الکسوف 19 (1066)، صحیح مسلم/الکسوف 1 (901)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 264 (1190)، (تحفة الأشراف: 16511)، سنن الدارمی/الصلاة 187 (1568)، ویأتي عند المؤلف برقم: 1474 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1466  
´سورج گرہن کی نماز کے لیے اعلان کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا تو نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو حکم دیا، تو اس نے ندا دی کہ نماز کے لیے جمع ہو جاؤ، تو سب جمع ہو گئے، اور انہوں نے صف بندی کی تو آپ نے انہیں چار رکوع، اور چار سجدوں کے ساتھ، دو رکعت نماز پڑھائی۔ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1466]
1466۔ اردو حاشیہ:
➊ اذان کے رائج ہونے سے پہلے فرض نماز کے لیے انھی لفظوں «الصلاۃ جامعۃ» سے بلایا جاتا تھا۔ اب اگر کسی نفل نماز کے لیے بلانا ہو تو ان لفظوں سے اعلان کیا جا سکتا ہے۔ اذان صرف فرض نماز کے لیے ہے۔
چار رکوع نماز کسوف کے بارے میں زیادہ معتبر اور اوثق روایات ایک رکعت کے اندر دو رکوع کی ہیں۔ بعض محدثین نے تین، چار اور پانچ رکوع کی روایات کو بھی صحیح مان کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کسوف کے وقت کے حساب سے رکوع کم و بیش کیے جا سکتے ہیں۔ دو سے پانچ تک۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ احادیث میں صرف ایک کسوف کا ذکر ہے اور وہ کشوف 28 شوال 10ھ کا ہے جس دن آپ کے فرزند ارجمند ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تھے کیونکہ ہر روایت میں موت و حیات کا ذکر ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایک نماز کسوف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی طریقہ اختیار فرما سکتے تھے اور وہ معتبر روایات کے مطابق دو رکوع والا ہے۔ اس مسئلے کی تصفیل پیچھے ابتدائیے میں گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔
➌ احناف عام نماز کی طرح نماز کشوف میں بھی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کے قائل ہیں مگر اس طرح صحیح اور صریح کثیر روایات، یعنی بخاری و مسلم کی اعلیٰ پائے کی روایات عمل سے رہ جائیں گی اور نماز کشوف کی خصوصی علامت ختم ہو جائے گی۔ اگر عیدین میں زائد تکبیرات، جنازے میں قیام کی زائد تکبیرات اور نماز وتر میں دعائے قنوت کا اضافہ احادیث کی بنا پر ہو سکتا ہے تو صلاۃ کسوف میں انتہائی معتبر اور صحیح روایات کی بنا پر ایک رکوع کا اضافہ کیوں قابل تسلیم نہیں؟ سوچیے! ہر صحیح حدیث واجب العمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1466   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1187  
´نماز کسوف کی قرآت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو آپ نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا تو میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ لگایا تو مجھے لگا کہ آپ نے سورۃ البقرہ کی قرآت کی ہے، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور لمبی قرآت کی، میں نے آپ کی قرآت کا اندازہ کیا کہ آپ نے سورۃ آل عمران کی قرآت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1187]
1187. اردو حاشیہ:
اس نماز میں قراءت حتی المقدور خوب لمبی ہونی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1187   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1188  
´نماز کسوف کی قرآت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبی قرآت کی اور اس میں جہر کیا یعنی نماز کسوف میں۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1188]
1188۔ اردو حاشیہ:
مذکوہ بالا دونوں احادیث کے درمیان جمع و تطبیق یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ فاصلے پر تھیں۔ اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأءت صاف سن نہ سکی تھیں، آواز سنی اس لئے جانا کہ قرأءت جہراً ہو رہی ہے لیکن یہ نہ جان سکیں کہ قرأءت کیا ہو رہی ہے، اس لئے اس کا اندازہ لگایا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1188   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1190  
´نماز کسوف (سورج یا چاند گرہن کی نماز) کے اعلان کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا کہ نماز (کسوف) جماعت سے ہو گی۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة الاستسقاء /حدیث: 1190]
1190۔ اردو حاشیہ:
نماز کسوف کے لئے اعلان عام تو مستحب ہے، مگر معروف اذان و اقامت نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1190   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 402  
´نماز کسوف کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز میں قرآت بلند آواز سے کی اور دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے۔ (بخاری و مسلم) اور اس حدیث کے الفاظ مسلم کے ہیں۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منادی کرنے والے کو بھیجا جو «الصلاة جامعة» کی عنادی کرتا تھا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 402»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الكسوف، باب الجهر با لقراءة في الكسوف، حديث:1065، ومسلم، الكسوف، باب صلاة الكسوف، حديث:901.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف میں قراء ت بلند آواز سے فرمائی۔
2. یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز عام نمازوں کی طرح نہیں بلکہ اس میں ایک رکوع کا اضافہ ہے۔
اس روایت کی رو سے آپ ایک رکعت میں دو رکوع فرماتے۔
اور یہی موقف راجح ہے جیسا کہ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
ظاہر ہے ہر رکوع سے اٹھ کر نئے سرے سے قراء ت کی ہوگی۔
اس طرح قراء ت کا بھی اضافہ ہوا۔
3.اس کا خاص وقت مقرر و متعین نہیں ہے‘ جب سورج یا چاند کو گرہن ہوگا اسی وقت نماز پڑھی جائے گی۔
4.عام نمازوں کے لیے تو اذان مقرر ہے اور صلاۃ کسوف و خسوف کے لیے «اَلصَّلاَۃُ جَامِعَۃٌ» کہنا مشروع ہے۔
پنجگانہ نماز کے لیے یہ کہنا ثابت نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 402   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 563  
´گرہن کی نماز میں قرأت کا طریقہ۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز پڑھی اور اس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 563]
اردو حاشہ:
نوٹ:

(متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کے راوی سفیان بن حسین امام زہری سے روایت میں ضعیف ہیں۔
دیکھیے صحیح أبی داود: 1074)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 563