سنن نسائي
كتاب الكسوف -- کتاب: (چاند، سورج) گرہن کے احکام و مسائل
25. بَابُ : الأَمْرِ بِالاِسْتِغْفَارِ فِي الْكُسُوفِ
باب: گرہن لگنے پر استغفار کرنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 1504
أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَسْرُوقِيُّ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قال:" خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ، فَقَامَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَقَامَ يُصَلِّي بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ مَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُهُ فِي صَلَاتِهِ قَطُّ , ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ هَذِهِ الْآيَاتِ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يُرْسِلُهَا يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مِنْهَا شَيْئًا فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر کھڑے ہوئے، آپ ڈر رہے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آ گئی ہے، چنانچہ آپ اٹھے یہاں تک کہ مسجد آئے، پھر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو آپ نے اتنے لمبے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کیے کہ اتنے لمبے میں نے آپ کو کسی نماز میں کرتے نہیں دیکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، یہ نہ کسی کے مرنے سے ہوتے ہیں نہ کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، تو جب تم ان میں سے کچھ دیکھو تو اللہ کو یاد کرنے اور اس سے دعا اور استغفار کرنے کے لیے دوڑ پڑو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الکسوف 14 (1059)، صحیح مسلم/الکسوف 5 (912)، (تحفة الأشراف: 9045) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1504  
´گرہن لگنے پر استغفار کرنے کا حکم۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا کر کھڑے ہوئے، آپ ڈر رہے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آ گئی ہے، چنانچہ آپ اٹھے یہاں تک کہ مسجد آئے، پھر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو آپ نے اتنے لمبے لمبے قیام، رکوع اور سجدے کیے کہ اتنے لمبے میں نے آپ کو کسی نماز میں کرتے نہیں دیکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے، یہ نہ کسی کے مرنے سے ہوتے ہیں نہ کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتا ہے، تو جب تم ان میں سے کچھ دیکھو تو اللہ کو یاد کرنے اور اس سے دعا اور استغفار کرنے کے لیے دوڑ پڑو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1504]
1504۔ اردو حاشیہ:
➊ راویٔ حدیث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ اور جلدی سے اندازہ لگایا کہ شاید آپ کو قیامت کا خطرہ محسوس ہوا ہے، یہ نہیں کہ آپ کو واقعی قیامت کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا کیونکہ قیامت کی بہت سی نشانیاں آپ نے بیان فرمائی ہیں جن میں سے سوائے آپ کی بعثت کے اور کوئی نشانی بھی پوری نہ ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ممکن ہے گھبراہٹ کی بنا پر آپ کا ذہن ان نشانیوں کی طرف متوجہ نہ ہوسکا یا اس وقت تک ابھی آپ کو دوسری نشانیاں بتلائی ہی نہ گئی تھیں، حالانکہ یہ واقعہ آپ کی وفات سے صرف چار، ساڑھے چار ماہ قبل ہوا ہے۔ آخری دونوں وجوہ کمزور ہیں۔
➋ چاند گرہن کا کوئی واقعہ احادیث میں منقول نہیں مگر تمام احادیث میں سورج اور چاند کو اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے اور احکام بھی مشترکہ ہی دیے گئے ہیں، لہٰذا چاند گرہن کے موقع پر بھی نمازکسوف اسی طرح پڑھی جائے گی اور دیگر احکام بھی لاگو ہوں گے۔ احناف نے بعض مصالح کی بنا پر چاند گرہن میں جماعت کو مناسب نہیں سمجھا مگر روایات صراحتاً ان کے خلاف ہیں۔
➌ نماز کسوف کے بارے میں پینتالیس (45) روایات ذکر کی گئی ہیں جن کا تعلق ایک یہ واقعے سے ہے۔ کچھ مفصل ہیں کچھ مجمل، پھر بعض میں وہم اور غلط فہمی بھی ہے، لہٰذا تمام روایات کو ملا کر مجموعی طور پر جو واقعے کی کیفیت سمجھ میں آتی ہے، وہ معتبر ہو گی، نیز اکا دکا روایات میں اگر کوئی بات کثیر روایات کے خلاف آگئی ہے تو اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے وہم قرار دیا جائے گا، خواہ راوی ثقہ ہی ہوں کیونکہ کسی واقعے کی تحقیق کا یہی طریقہ ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1504