سنن نسائي
كتاب صلاة الخوف -- کتاب: نماز خوف کے احکام و مسائل
1. بَابُ :
باب:
حدیث نمبر: 1544
أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ. ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، قال: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ , وَذَكَرَ آخَرَ, قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ هَلْ صَلَّيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ؟ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ , قَالَ: مَتَى؟ قَالَ: عَامَ غَزْوَةِ نَجْدٍ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعَصْرِ وَقَامَتْ مَعَهُ طَائِفَةٌ وَطَائِفَةٌ أُخْرَى مُقَابِلَ الْعَدُوِّ وَظُهُورُهُمْ إِلَى الْقِبْلَةِ، فَكَبَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرُوا جَمِيعًا الَّذِينَ مَعَهُ وَالَّذِينَ يُقَابِلُونَ الْعَدُوَّ، ثُمَّ رَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً وَاحِدَةً وَرَكَعَتْ مَعَهُ الطَّائِفَةُ الَّتِي تَلِيهِ ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي تَلِيهِ، وَالْآخَرُونَ قِيَامٌ مُقَابِلَ الْعَدُوِّ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَامَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي مَعَهُ فَذَهَبُوا إِلَى الْعَدُوِّ فَقَابَلُوهُمْ وَأَقْبَلَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلَ الْعَدُوِّ فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ كَمَا هُوَ , ثُمَّ قَامُوا فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً أُخْرَى وَرَكَعُوا مَعَهُ وَسَجَدَ وَسَجَدُوا مَعَهُ، ثُمَّ أَقْبَلَتِ الطَّائِفَةُ الَّتِي كَانَتْ مُقَابِلَ الْعَدُوِّ فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ وَمَنْ مَعَهُ، ثُمَّ كَانَ السَّلَامُ فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَلَّمُوا جَمِيعًا فَكَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَانِ وَلِكُلِّ رَجُلٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ".
مروان بن حکم سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی ہے؟ تو ابوہریرہ نے کہا: ہاں پڑھی ہے، انہوں نے پوچھا: کب؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نجد کے غزوہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابل رہا، اور ان کی پیٹھ قبلہ کی طرف تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، تو جو آپ کے ساتھ تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے سبھوں نے اللہ اکبر کہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکوع کیا، اور اس گروہ نے بھی جو آپ کے ساتھ تھا رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور اس گروہ نے بھی سجدہ کیا جو آپ کے ساتھ تھا، اور دوسرے لوگ دشمن کے مقابل کھڑے رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور وہ گروہ جو آپ کے ساتھ تھا، پھر یہ لوگ جا کر دشمن کے بالمقابل کھڑے ہو گئے، پھر وہ گروہ جو دشمن کے بالمقابل تھا آیا، چنانچہ ان لوگوں نے (بھی) رکوع کیا، اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے جیسے تھے، پھر وہ لوگ کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا رکوع کیا، تو ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ رکوع کیا، آپ نے سجدہ کیا، اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر وہ گروہ آیا جو دشمن کے مقابل میں کھڑا تھا، تو اس نے بھی رکوع اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے بیٹھے ہوئے تھے، پھر سلام پھیرنے (کا وقت آیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اور تمام لوگوں نے سلام پھیرا، تو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعت ہوئی، اور دونوں گروہوں کے ہر ہر فرد کی (بھی) دو دو رکعت ہوئی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 284 (1240)، (تحفة الأشراف: 14606)، مسند احمد 2/320 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1544  
´باب:`
مروان بن حکم سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی ہے؟ تو ابوہریرہ نے کہا: ہاں پڑھی ہے، انہوں نے پوچھا: کب؟ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نجد کے غزوہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ایک گروہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابل رہا، اور ان کی پیٹھ قبلہ کی طرف تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، تو جو آپ کے ساتھ تھے اور جو دشمن کا مقابلہ کر رہے تھے سبھوں نے اللہ اکبر کہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکوع کیا، اور اس گروہ نے بھی جو آپ کے ساتھ تھا رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور اس گروہ نے بھی سجدہ کیا جو آپ کے ساتھ تھا، اور دوسرے لوگ دشمن کے مقابل کھڑے رہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور وہ گروہ جو آپ کے ساتھ تھا، پھر یہ لوگ جا کر دشمن کے بالمقابل کھڑے ہو گئے، پھر وہ گروہ جو دشمن کے بالمقابل تھا آیا، چنانچہ ان لوگوں نے (بھی) رکوع کیا، اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے جیسے تھے، پھر وہ لوگ کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا رکوع کیا، تو ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ رکوع کیا، آپ نے سجدہ کیا، اور ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر وہ گروہ آیا جو دشمن کے مقابل میں کھڑا تھا، تو اس نے بھی رکوع اور سجدہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جو آپ کے ساتھ تھے بیٹھے ہوئے تھے، پھر سلام پھیرنے (کا وقت آیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اور تمام لوگوں نے سلام پھیرا، تو اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعت ہوئی، اور دونوں گروہوں کے ہر ہر فرد کی (بھی) دو دو رکعت ہوئی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1544]
1544۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ نماز خوف کی ایک اور صورت ہے۔ یہ اس وقت قابل عمل ہو گی جب خوف زیادہ نہ ہو کیونکہ شروع نماز میں بھی سب اکٹھے تھے اور آخر نماز میں بھی سب اکٹھے تھے، بلکہ آخر میں تو دشمن کے مقابل کوئی بھی نہ رہا۔ سب آپ کے پیچھے تھے۔ ایک گروہ اپنی نماز کی باقی رکعت پڑھ رہے تھے اور دوسرے ویسے آپ کے پیچھے بیٹھے تھے۔ سلام سب نے بیک وقت پھیرا۔
➋ نجد اونچے علاقے کو کہتے ہیں اور یہ کئی علاقوں میں تھا، مثلاً: نجد حجاز، نجد عراق اور نجد یمن۔ مندرجہ بالا حدیث میں نجد سے نجد حجاز مراد ہے۔ اور بددعا والی حدیث میں نجد عراق۔ اس کا پتہ قرائن اور دیگر احادیث سے چلتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1544   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3035  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضجنان اور عسفان (نامی مقامات) کے درمیان قیام فرما ہوئے، مشرکین نے کہا: ان کے یہاں ایک نماز ہوتی ہے جو انہیں اپنے باپ بیٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے، اور وہ نماز عصر ہے، تو تم پوری طرح تیاری کر لو پھر ان پر یک بارگی ٹوٹ پڑو۔ (اس پر) جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو حکم دیا کہ اپنے صحابہ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیں (ان میں سے) ایک گروہ کے ساتھ آپ نماز پڑھیں اور دوسرا گروہ ان کے پیچھے اپنے بچاؤ کا سامان اور اپنے ہتھیار لے کر کھڑا رہے۔ پھر دوسرے گر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3035]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف ﴿وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاَةَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُواْ أَسْلِحَتَهُمْ﴾ (النساء: 102)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3035