صحيح البخاري
كِتَاب الْمُزَارَعَةِ -- کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
18. بَابُ مَا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوَاسِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا فِي الزِّرَاعَةِ وَالثَّمَرَةِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کھیتی باڑی میں ایک دوسرے کی مدد کس طرح کرتے تھے۔
حدیث نمبر: 2344
ثُمَّ حُدِّثَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى كِرَاءِ الْمَزَارِعِ". فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى رَافِعٍ، فَذَهَبْتُ مَعَهُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّا كُنَّا نُكْرِي مَزَارِعَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى الْأَرْبِعَاءِ وَبِشَيْءٍ مِنَ التِّبْنِ.
پھر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع کیا تھا۔ (یہ سن کر) ابن عمر رضی اللہ عنہما رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم اپنے کھیتوں کو اس پیداوار کے بدل جو نالیوں پر ہو اور تھوڑی گھاس کے بدل دیا کرتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2344  
2344. پھر انہیں حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث بتائی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے کھیت کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے تو وہ خود حضرت رافع ؓ کے پاس گئے۔ (حضرت نافع کہتے ہیں کہ) میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ انھوں نے دریافت کیا تو حضرت رافع ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنے کھیت اس پیداوار کے بدلے جو نالیوں کے کناروں پر ہوتی تھی اور کچھ گھاس کے عوض بٹائی پر دے دیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2344]
حدیث حاشیہ:
قانون الگ ہے اور ایثار الگ۔
حضرت رافع بن خدیج ؓ نے قانون نہیں بلکہ احسان اور ایثار کے طریقہ کو بتلایا ہے اس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جواز اور عدم جواز کی صورت بیان فرما رہے ہیں۔
جس کا مقصد یہ کہ مدینہ میں جو یہ طریقہ رائج تھا کہ نہر کے قریب کی پیداوار زمین کا مالک لے لیتا اس سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا مطلق بٹائی سے منع نہیں فرمایا۔
یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین بطور ہمدردی کاشت کے لیے اپنے کسی بھائی کو دے دے۔
آنحضرت ﷺ نے اس طرز عمل کی بڑے شاندار لفظوں میں رغبت دلائی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2344