صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ -- کتاب: مساقات کے بیان میں
1M. بَابٌ في الشُّرْبِ، وَمَنْ رَأَى صَدَقَةَ الْمَاءِ وَهِبَتَهُ وَوَصِيَّتَهُ جَائِزَةً، مَقْسُومًا كَانَ أَوْ غَيْرَ مَقْسُومٍ:
باب: پانی کی تقسیم اور جو کہتا ہے پانی کا حصہ خیرات کرنا اور ہبہ کرنا اور اس کی وصیت کرنا جائز ہے وہ پانی بٹا ہوا ہو یا بن بٹا ہوا۔
حدیث نمبر: 2352
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّهَا حُلِبَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ دَاجِنٌ وَهِيَ فِي دَارِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَشِيبَ لَبَنُهَا بِمَاءٍ مِنَ الْبِئْرِ الَّتِي فِي دَارِ أَنَسٍ، فَأَعْطَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَدَحَ، فَشَرِبَ مِنْهُ حَتَّى إِذَا نَزَعَ الْقَدَحَ مِنْ فِيهِ، وَعَلَى يَسَارِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَخَافَ أَنْ يُعْطِيَهُ الْأَعْرَابِيَّ، أَعْطِ أَبَا بَكْرٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدَكَ، فَأَعْطَاهُ الْأَعْرَابِيَّ الَّذِي عَلَى يَمِينِهِ، ثُمَّ قَالَ: الْأَيْمَنَ فَالْأَيْمَنَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گھر میں پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا، جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی کے گھر میں پلی تھی۔ پھر اس کے دودھ میں اس کنویں کا پانی ملا کر جو انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا۔ جب اپنے منہ سے پیالہ آپ نے جدا کیا تو بائیں طرف ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اور دائیں طرف ایک دیہاتی تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ ڈرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پیالہ دیہاتی کو نہ دے دیں۔ اس لیے انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو دے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ اسی دیہاتی کو دیا جو آپ کی دائیں طرف تھا۔ اور فرمایا کہ دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے۔ پھر وہ جو اس کی داہنی طرف ہو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 471  
´دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بلبن قد شيب بماء وعن يمينه اعرابي وعن يساره ابو بكر الصديق، فشرب ثم اعطى الاعرابي وقال: الايمن فالايمن.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں (کنویں کا) پانی ملایا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک اعرابی (دیہاتی) اور بائیں طرف سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دودھ) پیا پھر (باقی دودھ) اعرابی کو دے دیا اور فرمایا: دایاں (مقدم ہے) پھر (جو اس کے بعد) دایاں ہو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 471]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 926/2 ح 787، ك 49 ح 17، التمهيد 151/6، الاستذكار: 1720، أخرجه البخاري 5619، ومسلم 2029، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اپنے پینے کے لئے دودھ میں پانی ڈالنا جائز ہے لیکن اسے خالص دودھ کے نام پر بیچنا جائز نہیں ہے۔
➋ دوسروں کو پلانے والا پہلے خود پی سکتا ہے۔
➌ کھانے پینے کی چیزیں اگر دوسروں کو تحفتاً دی جائیں تو دائیں طرف سے ابتدأ کرنا چاہئے۔
➍ تحفہ قبول کرنا مسنون ہے بشرطیکہ کوئی شرعی عذر مانع نہ ہو۔
➎ دودھ پینا مسنون اور صحت و توانائی کے لئے بہترین غذا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 3   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3726  
´جو شخص قوم کا ساقی ہو وہ کب پئے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ لایا گیا جس میں پانی ملایا گیا تھا، آپ کے دائیں ایک دیہاتی اور بائیں ابوبکر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا پھر دیہاتی کو (پیالہ) دے دیا اور فرمایا: دائیں طرف والا زیادہ حقدار ہے پھر وہ جو اس کے دائیں ہو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3726]
فوائد ومسائل:
فائدہ: ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ ساقی خود آخر میں پیے۔
اور جسے مجلس میں دودھ وغیرہ پیش کیا جائے۔
وہ اوروں کی طرف بڑھائے۔
تو دایئں والے کو دے اور پھر اسی طرح آگے پیش کیا جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3726   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2352  
2352. حضرت انس ؓ بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک گھریلو بکری کو دوہاگیا اور وہ بکری حضرت انس ؓ کے گھر میں تھی۔ اس میں ایک کنویں کا پانی ملایا گیا جو حضرت انس ؓ کے گھر میں تھا۔ پھر وہ پیالہ رسول اللہ ﷺ کو پیش کیا گیا۔ آپ نے اس سے نوش فرمایا تاآنکہ آپ نے اپنے دہن(منہ) مبارک سے اسے علیحدہ کیا آپ کی بائیں جانب حضرت ابو بکر ؓ تھے اور دائیں جانب ایک دیہاتی تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ آپ ﷺ اس دیہاتی کو پیالہ دے دیں گے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!پیالہ ابو بکر ؓ کو دیجیے وہ آپ کے پاس ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے وہ پیالہ اعرابی کو دے دیا جو آپ کے دائیں جانب تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: دائیں جانب والا زیادہ حقدار ہے، پھر جو اس کے دائیں جانب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2352]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی پانی کا تقسیم یا ہبہ کرنا ثابت ہوا۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلام میں حق کے مقابلہ پر کسی کے لیے رعایت نہیں ہے۔
کوئی کتنی ہی بڑی شخصیت کیوں نہ ہو۔
حق اس سے بھی بڑا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی بزرگی میں کس کو شک ہو سکتا ہے مگر آنحضرت ﷺ نے آپ کو نظر انداز فرما کر دیہاتی کو وہ پانی دیا اس لیے کہ قانون دیہاتی ہی کے حق میں تھا۔
امام عادل کی یہی شان ہونی چاہئیے۔
اور ﴿اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى﴾ (المائدة: 8)
کا بھی یہی مطلب ہے۔
یہاں اس دیہاتی سے اجازت بھی نہیں لی گئی جیسے کہ ابن عباس ؓ سے لی گی تھی۔
اس ڈر سے کہ کہیں دیہاتی بد دل نہ ہوجائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2352   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2352  
2352. حضرت انس ؓ بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے ایک گھریلو بکری کو دوہاگیا اور وہ بکری حضرت انس ؓ کے گھر میں تھی۔ اس میں ایک کنویں کا پانی ملایا گیا جو حضرت انس ؓ کے گھر میں تھا۔ پھر وہ پیالہ رسول اللہ ﷺ کو پیش کیا گیا۔ آپ نے اس سے نوش فرمایا تاآنکہ آپ نے اپنے دہن(منہ) مبارک سے اسے علیحدہ کیا آپ کی بائیں جانب حضرت ابو بکر ؓ تھے اور دائیں جانب ایک دیہاتی تھا۔ حضرت عمر ؓ نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ آپ ﷺ اس دیہاتی کو پیالہ دے دیں گے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!پیالہ ابو بکر ؓ کو دیجیے وہ آپ کے پاس ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے وہ پیالہ اعرابی کو دے دیا جو آپ کے دائیں جانب تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: دائیں جانب والا زیادہ حقدار ہے، پھر جو اس کے دائیں جانب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2352]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ہے کہ تمام مسلمان نمک، گھاس اور پانی میں شریک ہیں۔
(سنن ابن ماجة، الرھون، حدیث: 2472)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ پانی میں کسی کی ملکیت نہیں ہوتی۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید فرمائی اور ثابت کیا کہ پانی میں ملکیت جاری ہوتی ہے اور اس کا صدقہ کرنا یا ہبہ کرنا جائز ہے جیسا کہ حدیث بالا سے واضح ہے۔
مسلمان پانی، گھاس اور نمک میں شریک ہیں، اس کا مطلب شرکت ملک نہیں بلکہ شرکت اباحت ہے، یعنی ان میں اجارہ داری نہیں کوئی بھی پہلے جا کر اسے استعمال کر سکتا ہے، اپنے برتن میں ڈال سکتا ہے، اپنے مویشیوں کے لیے کاٹ سکتا ہے۔
(عمدة القاري: 52/9) (2)
رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر اعرابی کے حق کو مقدم رکھا اور یہی ہونا چاہیے تھا۔
اگر آپ حضرت عمر ؓ کا مشورہ قبول کر لیتے تو اس سے یہ اصول بن جاتا کہ بڑوں کے ہوتے ہوئے چھوٹوں کا حق نہیں رہتا لیکن دین اسلام میں حق کے مقابلے میں کسی کے لیے رعایت نہیں۔
کوئی کتنا بڑا ہو، حق اس سے بھی بڑا ہے، اگر وہ کسی چھوٹے کو پہنچتا ہے تو بڑوں کا فرض ہے کہ اسے فراخ دلی سے منتقل ہونے دیں، لیکن اس دور میں اس قسم کا ایثار کرنا بہت کم ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2352