صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ -- کتاب: مساقات کے بیان میں
10. بَابُ مَنْ رَأَى أَنَّ صَاحِبَ الْحَوْضِ وَالْقِرْبَةِ أَحَقُّ بِمَائِهِ:
باب: جن کے نزدیک حوض والا اور مشک کا مالک ہی اپنے پانی کا زیادہ حقدار ہے۔
حدیث نمبر: 2369
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ: رَجُلٌ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ لَقَدْ أَعْطَى بِهَا أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَى وَهُوَ كَاذِبٌ، وَرَجُلٌ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ كَاذِبَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ، وَرَجُلٌ مَنَعَ فَضْلَ مَاءٍ فَيَقُولُ اللَّهُ الْيَوْمَ أَمْنَعُكَ فَضْلِي كَمَا مَنَعْتَ فَضْلَ مَا لَمْ تَعْمَلْ يَدَاكَ". قَالَ عَلِيٌّ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ غَيْرَ مَرَّةٍ، عَنْ عَمْرٍو، سَمِعَ أَبَا صَالِحٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابوصالح سمان نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین طرح کے آدمی ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بات بھی نہ کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھے گا۔ وہ شخص جو کسی سامان کے متعلق قسم کھائے کہ اسے اس کی قیمت اس سے زیادہ دی جا رہی تھی جتنی اب دی جا رہی ہے حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔ وہ شخص جس نے جھوٹی قسم عصر کے بعد اس لیے کھائی کہ اس کے ذریعہ ایک مسلمان کے مال کو ہضم کر جائے۔ وہ شخص جو اپنی ضرورت سے بچے پانی سے کسی کو روکے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آج میں اپنا فضل اسی طرح تمہیں نہیں دوں گا جس طرح تم نے ایک ایسی چیز کے فالتو حصے کو نہیں دیا تھا جسے خود تمہارے ہاتھوں نے بنایا بھی نہ تھا۔ علی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے عمرو سے کئی مرتبہ بیان کیا کہ انہوں نے ابوصالح سے سنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس حدیث کی سند پہنچاتے تھے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2369  
2369. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت ہی سے دیکھے گا: ایک وہ شخص جس نے سامان فروخت کرتے وقت قسم اٹھائی کہ اس کی قیمت مجھے ا س سے کہیں زیادہ مل رہی تھی، حالانکہ وہ اس بات میں جھوٹا تھا۔ دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ اس سے کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے۔ تیسرا وہ شخص جوفالتو پانی سے لوگوں کو منع کرے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: آج کے دن میں تجھ سے اپنا فضل روک لیتا ہوں جیسا کہ تو نے اس چیز کا فضل روکا تھا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔ علی نے کہا: سفیان نے ہمیں کئی مرتبہ عمرہ کے واسطے سے بیان کیا اور عمرو، ابوصالح سے بیان کرتے ہیں جبکہ ابو صالح اس کو بغیر کسی واسطے کے نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2369]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں بیان کردہ مضمون نمبر3سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ ضرورت سے زیادہ پانی روکنے پر یہ سزا ملی تو معلوم ہوا کہ بقدر ضرورت اس کو روکنا جائز تھا۔
اور وہ اس کا حق رکھتا تھا۔
بعض نے کہا یہ جو فرمایا جو تیرا بنایا ہوا نہ تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر وہ پانی اس نے اپنی محنت سے نکالا ہوتا، جیسے کنواں کھودا ہوتا یا مشک میں بھر کر لایا ہوتا تو وہ اس کا حق دا رہوتا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2369   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2369  
2369. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت ہی سے دیکھے گا: ایک وہ شخص جس نے سامان فروخت کرتے وقت قسم اٹھائی کہ اس کی قیمت مجھے ا س سے کہیں زیادہ مل رہی تھی، حالانکہ وہ اس بات میں جھوٹا تھا۔ دوسرا وہ شخص جس نے عصر کے بعد جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ اس سے کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے۔ تیسرا وہ شخص جوفالتو پانی سے لوگوں کو منع کرے۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: آج کے دن میں تجھ سے اپنا فضل روک لیتا ہوں جیسا کہ تو نے اس چیز کا فضل روکا تھا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔ علی نے کہا: سفیان نے ہمیں کئی مرتبہ عمرہ کے واسطے سے بیان کیا اور عمرو، ابوصالح سے بیان کرتے ہیں جبکہ ابو صالح اس کو بغیر کسی واسطے کے نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2369]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق تیسرے شخص کو فالتو پانی سے منع کرنے پر عتاب ہوا، اس سے معلوم ہوا کہ اصل پانی کا وہ حق دار تھا، اگر وہ اصل پانی کو بقدر ضرورت روک لے تو وہ حق بجانب ہے کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔
بعض حضرات نے اس طرح مناسبت پیدا کی ہے کہ اللہ کی طرف سے عتاب ہوا کہ پانی تیرا پیدا کردہ نہیں تھا، اس سے معلوم ہوا کہ اگر پانی کسی نے اپنی محنت سے پیدا کیا ہو جیسا کہ کنواں کھودا جاتا ہے یا مشکیزوں میں بھرا جاتا ہے تو وہ اس کا حق دار ہو گا۔
(2)
واضح رہے کہ حدیث میں عصر کے بعد قسم اٹھانے کی قید اتفاقی ہے احترازی نہیں کیونکہ عام طور پر لوگ اسی وقت قسم اٹھاتے ہیں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت فرشتوں کے آنے جانے کا وقت ہے۔
وقت کی عظمت سے گناہوں میں بھی سنگینی آ جاتی ہے۔
(3)
حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے سند کے متعلق جو وضاحت فرمائی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ سفیان اس روایت کو اکثر مرسل بیان کرتے ہیں جبکہ گزشتہ سلسلۂ روایت میں ان سے اس کا موصول ہونا بھی ثابت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2369