صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ -- کتاب: مساقات کے بیان میں
14. بَابُ الْقَطَائِعِ:
باب: قطعات اراضی بطور جاگیر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2376
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْطِعَ مِنَ الْبَحْرَيْنِ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: حَتَّى تُقْطِعَ لِإِخْوَانِنَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ مِثْلَ الَّذِي تُقْطِعُ لَنَا، قَالَ: سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین میں کچھ قطعات اراضی بطور جاگیر (انصار کو) دینے کا ارادہ کیا تو انصار نے عرض کیا کہ ہم جب لیں گے کہ آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اسی طرح کے قطعات عنایت فرمائیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد (دوسرے لوگوں کو) تم پر ترجیح دی جایا کرے گی تو اس وقت تم صبر کرنا، یہاں تک کہ ہم سے (آخرت میں آ کر) ملاقات کرو۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2376  
2376. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ بحرین کے علاقے میں کچھ جاگیریں لوگوں کو دیں۔ انصار نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا نہ کریں تاآنکہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بھی جاگیریں دیں جیسا کہ ہمیں دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم عنقریب دیکھو گے کہ لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ ایسے حالات میں میری ملاقات تک صبر کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2376]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے انصار کو بحرین میں کچھ جاگیریں دینے کا ارادہ فرمایا، اسی سے قطعات اراضی بطور جاگیر دینے کا جواز ثابت ہوا۔
حکومت کے پاس اگر کچھ زمین فالتو ہو تو وہ پبلک میں کسی کو بھی اس کی ملی خدمات کے صلہ میں دے سکتی ہے۔
یہی مقصد باب ہے۔
مستقبل کے لیے آپ نے انصار کو ہدایت فرمائی کہ وہ فتنوں کے دور میں جب عام حق تلفی دیکھیں خاص طور پر اپنے بارے میں ناساز گار حالات ان کے سامنے آئیں تو ان کو چاہئے کہ صبر و شکر سے کام لیں۔
ان کے رفع درجات کے لیے یہ بڑا بھاری ذریعہ ہوگا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2376   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2376  
2376. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ بحرین کے علاقے میں کچھ جاگیریں لوگوں کو دیں۔ انصار نے مشورہ دیا کہ آپ ایسا نہ کریں تاآنکہ ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بھی جاگیریں دیں جیسا کہ ہمیں دیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم عنقریب دیکھو گے کہ لوگوں کو تم پر ترجیح دی جائے گی۔ ایسے حالات میں میری ملاقات تک صبر کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2376]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی کو اس کی خدمات کے صلے میں حکومت کی طرف سے جاگیرداری جا سکتی ہے، لیکن دور حاضر میں سیاسی شعبدہ بازوں کو بہترین زمینیں اور قیمتی پلاٹ ملتے ہیں۔
ہمارے ہاں ملکی سیاست کا دارومدار اسی سیاسی رشوت پر ہے۔
بہرحال زمانۂ قدیم سے یہ عادت ہے کہ بادشاہ کی طرف سے خاص لوگوں کو غیر آباد زمینیں دی جاتی تھیں جنہیں وہ محنت کر کے آباد کر لیتے اور وہ ان کے مالک قرار پاتے، بطور ملکیت ان سے فائدہ اٹھاتے۔
(2)
واضح رہے کہ بحرین سے مراد آج کل والا بحرین نہیں بلکہ عہد نبوی کے بحرین میں سعودی عرب کا مشرقی صوبہ شامل تھا جس میں الخبر، الدمام اور ظہران وغیرہ کے علاقے ہیں۔
بہرحال حاکم وقت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو اس کی خدمات کے صلے میں کوئی جاگیر دے دے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2376