سنن نسائي
كتاب الجنائز -- کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
118. بَابُ : الْبَعْثِ
باب: موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2084
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عُرَاةً غُرْلًا، وَأَوَّلُ الْخَلَائِقِ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ قَرَأَ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ سورة الأنبياء آية 104.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ قیامت کے دن ننگ دھڑنگ، غیر مختون اکٹھا کیے جائیں گے، اور مخلوقات میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «كما بدأنا أول خلق نعيده» جیسے ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ویسے ہی دوبارہ پیدا کریں گے (الانبیاء: ۱۰۴)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأنبیاء 8 (3349)، 49 (3447)، تفسیر المائدة 13 (4626)، تفسیر الأنبیاء 2 (4740)، الرقاق 45 (6526)، صحیح مسلم/الجنة 14 (2860)، سنن الترمذی/صفة القیامة 3 (2423)، تفسیر الأنبیاء (3167)، (تحفة الأشراف: 5622)، مسند احمد 1/223، 229، 235، 253، سنن الدارمی/الرقاق 82 (2844)، ویأتي برقم: 2089 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2084  
´موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ قیامت کے دن ننگ دھڑنگ، غیر مختون اکٹھا کیے جائیں گے، اور مخلوقات میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «كما بدأنا أول خلق نعيده» جیسے ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ویسے ہی دوبارہ پیدا کریں گے (الانبیاء: ۱۰۴)۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2084]
اردو حاشہ:
(1) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سب سے پہلے لباس مہیا ہونا ان کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ اور وہ ان کا ایسا امتیاز ہے جس پر کوئی اور نبی حتیٰ کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک نہیں۔ یہ ان کی جزوی فضیلت ہے۔ اور یہ کوئی بعید نہیں کہ کسی نبی کو جزوی طور پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت حاصل ہو، البتہ یہ بات قطعی ہے کہ مجموعی طور پر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہی افضل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ فضیلت اس بنا پر حاصل ہوئی کہ انھیں آگ میں پھینکتے وقت اللہ کے راستے میں ننگا کیا گیا اور انھوں نے اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برداشت کیا اور ثواب کے طالب ہوئے۔ یا، اس لیے کہ انھوں نے سب سے پہلے لباس پہنا جو یقیناً پردہ دار لباس ہے۔ اس کا بدلہ ان کو اس فضیلت کی صورت میں دیا جائے گا۔
(2) ویسے ہی یعنی تمام اعضاء اصلی حالت میں ہوں گے حتیٰ کہ ختنہ بھی نہیں ہوگا (کیونکہ یہ بعد کی تبدیلی ہے) البتہ جسامت کے لحاظ سے جسم بڑا ہوگا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2084   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2423  
´حشر و نشر کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہو گا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے (الانبیاء: ۱۰۴)، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2423]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے،
یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے،
اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے۔
(الانبیاء: 104)
2؎:
ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے،
اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا،
اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر انسان کا ایمان وعمل درست نہ ہوتووہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں ر ہا ہو،
کسی دوسری ہستی پر مغرور ہوکر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے،
بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتارہیں،
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔

3؎:
اگر تو انہیں عذاب دے تو یقینا یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقینا تو غالب اور حکمت والا ہے۔
(المائدہ: 118)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2423