سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
1. بَابُ : وُجُوبِ الصِّيَامِ
باب: روزے کی فرضیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2093
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: نُهِينَا فِي الْقُرْآنِ أَنْ نَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْءٍ، فَكَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ الْعَاقِلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ فَيَسْأَلَهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَتَانَا رَسُولُكَ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَرْسَلَكَ، قَالَ:" صَدَقَ"، قَالَ: فَمَنْ خَلَقَ السَّمَاءَ؟ قَالَ" اللَّهُ"، قَالَ فَمَنْ خَلَقَ الْأَرْضَ؟ قَالَ:" اللَّهُ"، قَالَ: فَمَنْ نَصَبَ فِيهَا الْجِبَالَ؟ قَالَ:" اللَّهُ"، قَالَ: فَمَنْ جَعَلَ فِيهَا الْمَنَافِعَ؟ قَالَ:" اللَّهُ"، قَالَ: فَبِالَّذِي خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، وَنَصَبَ فِيهَا الْجِبَالَ، وَجَعَلَ فِيهَا الْمَنَافِعَ آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قَالَ:" صَدَقَ"، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا زَكَاةَ أَمْوَالِنَا، قَالَ:" صَدَقَ"، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي كُلِّ سَنَةٍ، قَالَ:" صَدَقَ"، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: وَزَعَمَ رَسُولُكَ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ:" صَدَقَ"، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَزِيدَنَّ عَلَيْهِنَّ شَيْئًا وَلَا أَنْقُصُ، فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَئِنْ صَدَقَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہمیں قرآن کریم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لایعنی بات پوچھنے سے منع کیا گیا تھا، تو ہمیں یہ بات اچھی لگتی کہ دیہاتیوں میں سے کوئی عقلمند شخص آئے، اور آپ سے نئی نئی باتیں پوچھے، چنانچہ ایک دیہاتی آیا، اور کہنے لگا: اے محمد! ہمارے پاس آپ کا قاصد آیا، اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا، اس نے پوچھا: آسمان کو کس نے پیدا کیا؟ آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے (پھر) اس نے پوچھا: زمین کو کس نے پیدا کیا؟ آپ نے کہا: اللہ نے (پھر) اس نے پوچھا: اس میں پہاڑ کو کس نے نصب کیے ہیں؟ آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے (پھر) اس نے پوچھا: اس میں نفع بخش (چیزیں) کس نے بنائیں؟ آپ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے (پھر) اس نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا، اور اس میں پہاڑ نصب کیے، اور اس میں نفع بخش (چیزیں) بنائیں کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے؟ آپ نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: اور آپ کے قاصد نے کہا ہے کہ ہمارے اوپر ہر روز دن اور رات میں پانچ وقت کی نماز فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا، تو اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو بھیجا! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان (نمازوں) کا حکم دیا ہے؟ آپ نے کہا: ہاں، (پھر) اس نے کہا: آپ کے قاصد نے کہا ہے کہ ہم پر اپنے مالوں کی زکاۃ فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا، (پھر) اس نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو بھیجا! کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے کہا: ہاں، (پھر) اس نے کہا: آپ کے قاصد نے کہا ہے: ہم پر ہر سال ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں، آپ نے کہا: اس نے سچ کہا (پھر) اس نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان (دنوں کے روزوں) کا حکم دیا ہے؟ آپ نے کہا: ہاں، (پھر) اس نے کہا: آپ کے قاصد نے کہا ہے: ہم میں سے جو کعبہ تک جانے کی طاقت رکھتے ہوں، ان پر حج فرض ہے؟ آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا، اس نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو بھیجا! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تو اس نے کہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا فرمایا: میں ہرگز نہ اس میں کچھ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا، جب وہ لوٹا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ ضرور جنت میں داخل ہو گا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 6 (63) تعلیقاً، صحیح مسلم/الإیمان 3 (12)، سنن الترمذی/الزکاة 2 (619)، (تحفة الأشراف: 404)، مسند احمد 3/143، 193، سنن الدارمی/الطھارة 1 (676) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 63  
´روایت حدیث کا ایک طریقہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِك، يَقُولُ:" بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ . . .»
. . . انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا (بھائیو) تم لوگوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کون سے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 63]

تشریح:
مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے «فاناخ بعيره على باب المسجد» یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ «مبارك اللهم نعم» کا استعمال فرماتے رہے۔ «اللهم» تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنیٰ کو شامل فرما لیا۔ یہ عربوں کے محاورے کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا 9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض و قرات کا طریقہ بھی معتبر ہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انہوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔

حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کر لی تھیں لیکن پھر خود حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگر کسی کے پاس کوئی روایت چند واسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آ سکتی ہو تو ملاقات کر کے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 63   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 619  
´زکاۃ ادا کرنے سے اپنے اوپر عائد فریضہ کے ادا ہو جانے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی عقلمند اعرابی (دیہاتی) آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھے اور ہم آپ کے پاس ہوں ۱؎ ہم آپ کے پاس تھے کہ اسی دوران آپ کے پاس ایک اعرابی آیا ۲؎ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا۔ اور پوچھا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور اس نے ہمیں بتایا کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے (کیا یہ صحیح ہے؟)۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، یہ صحیح ہے، اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 619]
اردو حاشہ:
1؎:
کیونکہ ہمیں سورہ مائدہ میں نبی اکرم ﷺ سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا،
اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا چالاک اعرابی آئے جسے اس ممانعت کاعلم نہ ہو اور وہ آ کر آپ سے سوال کرے۔

2؎:
اس اعرابی کا نام ضمام بن ثعلبہ تھا۔

3؎:
اس اعتقاد کے ساتھ کہ یہ فرض ہے،
مسلم کی روایت میں ((وَالَّذِى بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لاَ أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ وَلاَ أَنْقُصُ)) کے الفاظ آئے ہیں۔

4؎:
یعنی سماع من لفظ الشیخ کی طرح القراء ۃ علی الشیخ (استاذ کے پاس شاگرد کا پڑھنا) بھی جائز ہے،
مؤلف نے اس کے ذریعہ اہل عراق کے ان متشددین کی تردید کی ہے جو یہ کہتے تھے کہ قراء ۃ علی الشیخ جائز نہیں،
صحیح یہ ہے کہ دونوں جائز ہیں البتہ اخذ حدیث کے طریقوں میں سب سے اعلیٰ طریقہ سماع من لفظ الشیخ (استاذکی زبان سے سننے) کا ہے،
اس طریقے میں استاذ اپنی مرویات اپنے حافظہ سے یا اپنی کتاب سے خود روایت کرتا ہے اور طلبہ سنتے ہیں اور شاگرد اسے روایت کرتے وقت سمعت،
سمعنا،
حدثنا،
حدثني،
أخبرنا،
أخبرني،
أنبأنا،
أنبأني کے صیغے استعمال کرتا ہے،
اس کے بر خلاف القراء ۃ علی الشیخ (استاذ پر پڑھنے) کے طریقے میں شاگرد شیخ کو اپنے حافظہ سے یا کتاب سے پڑھ کر سناتا ہے اس کا دوسرا نام عرض بھی ہے اس صورت میں شاگرد قرأت على فلان يا قري على فلان وأنا أسمع،
يا حدثنا فلان قرائة عليه کہہ کر روایت کرتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 619