صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
3. بَابُ أَدَاءِ الدُّيُونِ:
باب: قرضوں کا ادا کرنا۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا سورة النساء آية 58.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نساء میں) فرمایا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ اللہ تمہیں اچھی ہی نصیحت کرتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔
حدیث نمبر: 2388
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَبْصَرَ يَعْنِي أُحُدًا، قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّهُ يُحَوَّلُ لِي ذَهَبًا يَمْكُثُ عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا دِينَارًا أُرْصِدُهُ لِدَيْنٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ، إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا، وَأَشَارَ أَبُو شِهَابٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَعَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ، وَقَالَ: مَكَانَكَ، وَتَقَدَّمَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَسَمِعْتُ صَوْتًا فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَهُ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَهُ مَكَانَكَ حَتَّى آتِيَكَ، فَلَمَّا جَاءَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الَّذِي سَمِعْتُ أَوْ قَالَ الصَّوْتُ الَّذِي سَمِعْتُ، قَالَ: وَهَلْ سَمِعْتَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: وَإِنْ فَعَلَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا، آپ کی مراد احد پہاڑ (کو دیکھنے) سے تھی۔ تو فرمایا کہ میں یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ احد پہاڑ سونے کا ہو جائے تو اس میں سے میرے پاس ایک دینار کے برابر بھی تین دن سے زیادہ باقی رہے۔ سوا اس دینار کے جو میں کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے رکھ لوں۔ پھر فرمایا، (دنیا میں) دیکھو جو زیادہ (مال) والے ہیں وہی محتاج ہیں۔ سوا ان کے جو اپنے مال و دولت کو یوں اور یوں خرچ کریں۔ ابوشہاب راوی نے اپنے سامنے اور دائیں طرف اور بائیں طرف اشارہ کیا، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دور آگے کی طرف بڑھے۔ میں نے کچھ آواز سنی (جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے باتیں کر رہے ہوں) میں نے چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد آیا کہ یہیں اس وقت تک ٹھہرے رہنا جب تک میں نہ آ جاؤں اس کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ! ابھی میں نے کچھ سنا تھا۔ یا (راوی نے یہ کہا کہ) میں نے کوئی آواز سنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم نے بھی سنا! میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ میں نے پوچھا کہ اگرچہ وہ اس طرح (کے گناہ) کرتا رہا ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ ہاں۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2388  
2388. حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ تھا، آپ نے احد پہاڑ کو دیکھ کرفرمایا: میں نہیں چاہتا کہ یہ پہاڑ میرے لیے سونے کابن جائے تو تین دن کے بعد ایک دینار بھی اس میں سے میرے پاس باقی رہے مگر وہ دینار جسے میں نے قرض کی ادائیگی کے لیے رکھ لیا ہو۔ پھر آپ نے فرمایا: بے شک جو دولت مند ہیں وہی محتاج ہیں مگر وہ شخص جو مال کو اس طرح خرچ کرے۔ (راوی حدیث)ابو شہاب نے اپنے ہاتھ سے سامنے دائیں اور بائیں جانب اشارہ کر کے بتایا کہ اس طریقے سے۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: تم یہیں ٹھہرو۔ پھر آپ تھوڑی دور آگے بڑھ گئے۔ چنانچہ میں نے کچھ آواز سنی تو ادھر جانا چاہا لیکن مجھے آپ کافرمان یاد آگیا کہ یہیں ٹھہرے رہنا جب تک میں تیرے پاس نہ آجاؤں۔ جب آپ واپس آئےتو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! یہ آواز کیسی تھی جو میں نے سنی؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2388]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کی فیاضی اور سخاوت کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے اُحد پہاڑ کے سونا بننے کی تمنا کی تاکہ میں اسے تین دن کے اندر اندر لوگوں میں تقسیم کر دوں۔
آپ کی غریب پروری کو بیان کیا گیا ہے، نیز پتا چلا کہ رسول اللہ ﷺ ادائیگی قرض کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔
آپ نے فرمایا:
تقسیم کے بعد میرے پاس سونا اتنا ہی بچے جس سے میں قرض ادا کر سکوں۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی صدقہ و خیرات کرنے پر مقدم ہے، نیز اس کی ادائیگی کے لیے انسان کو ہر وقت فکرمند رہنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2388