سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
9. بَابُ : إِكْمَالِ شَعْبَانَ ثَلاَثِينَ إِذَا كَانَ غَيْمٌ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
باب: بادل ہونے پر شعبان کے تیس دن پورے کرنے کا بیان اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرنے والے راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2119
أَخْبَرَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ، وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمُ الشَّهْرُ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس (دن) پورے کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 11 (1909)، صحیح مسلم/الصوم 2 (1081)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم 2 (684)، سنن ابن ماجہ/الصوم 7 (1655)، (تحفة الأشراف: 14382)، مسند احمد 2/ 409، 430، 471، 498، سنن الدارمی/الصیام 2 (1727) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ۲۹ شعبان کو آسمان میں بادل ہوں اور اس کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے روزوں کی شروعات کرو، اسی طرح ۲۹ رمضان کو اگر عید الفطر کا چاند نظر نہ آ سکے تو تیس روزے پورے کر کے عید الفطر مناؤ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2119  
´بادل ہونے پر شعبان کے تیس دن پورے کرنے کا بیان اور ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرنے والے راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاند دیکھ کر روزے رکھو، اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس (دن) پورے کرو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2119]
اردو حاشہ:
(1) ان میں اختلاف کی صورت یہ ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نیچے کے رواۃ میں شعبہ کے تلامذہ میں اختلاف ہے۔ جب اسماعیل بن علیہ امام شعبہ سے بیان کرتے ہیں تو فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ کے الفاظ نقل کرتے ہیں۔ لیکن جب ان سے ورقاء بن عمر یشکری بیان کرتے ہیں تو فَاقْدُرُوْا ثَلَاثِیْنَ کہتے ہیں لیکن اس سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مزید تفصیل وتحقیق کے لیے دیکھئے (فتح الباري: 4/ 21، رقم الحدیث: 1909)
(2) مہینہ کوئی بھی ہو، حکم یہی ہے۔ بعض روایات میں شعبان کا لفظ صرف اس لیے ہے کہ روزوں کا تعلق شعبان کے اختتام سے ہے، ورنہ خود رمضان بھی اس صورت حال میں (یعنی جب شوال کا چاند نظر نہ آئے) تیس دن ہی کا شمار کیا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2119   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1650  
´رمضان سے ایک روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت اگر کوئی شخص پہلے سے روزہ رکھتا چلا آیا ہو تو جائز ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، الا یہ کہ کوئی آدمی پہلے سے روزے رکھ رہا ہو تو وہ اسے رکھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1650]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رمضان شروع ہونے سے ایک دن پہلے روزہ رکھنے کی ایک صورت شک کا روزہ ہے۔
جس کی تفصیل گزشتہ باب میں بیان ہوئی یعنی جس دن مطلع ابر آلود ہونے یا کسی اور وجہ سے چاند نظر آنے کی شرعی گواہی نہ مل سکی ہو۔
اور لوگوں کو اس کی بابت شک ہو کہ تیس شعبان ہے۔
یا یکم رمضان تو اس دن اس نیت سے روزہ رکھنا کہ اگر بعد میں ثابت ہوگیا کہ رمضان شروع ہوچکا تھا تو یہ رمضان کا روزہ شمار ہوگا ورنہ نفلی روزہ ہوجائے گا۔
یہ صورت جائز نہیں۔

(2)
رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ رمضان شروع نہ ہونے کا یقینی علم ہونے کے باوجود روزہ رکھا جائے اس طرح نفل اور فرض کو باہم ملا دیا جائے تو یہ بھی جائز نہیں بلکہ یہ عمل ظاہری طور پر فرضی عبادت میں اضافے سے مشابہ ہے۔

(3)
رمضان سے پہلے روزہ رکھنے کی تیسری صورت یہ ہے مثلاً ایک شخص کا معمول سنت کے مطابق سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھنا ہے۔
اتفاقاً 29 یا 30 شعبان کو سوموار یا جمعرات کا دن تھا اور اس سے اگلے دن یکم رمضان ہوگیا۔
تو یہ روزہ رمضان سے پہلے اس سے متصل ہے۔
یا کسی کے ذمے قضاء وغیرہ کے روزے تھے۔
وہ 29 یا 30 شعبان کو ختم ہوئے۔
ان صورتوں میں یا ایسی ہی کسی اور صورت میں اس کا ارادہ رمضان کے ساتھ دوسرے روزے ملانے کا نہیں تھا بلکہ اتفاقاً یہ روزے رمضان کے روزوں سے آ ملے۔
تو یہ صورت جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1650   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 684  
´رمضان کے استقبال کی نیت سے ایک دو روز پہلے روزہ رکھنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ماہ (رمضان) سے ایک یا دو دن پہلے (رمضان کے استقبال کی نیت سے) روزے نہ رکھو ۱؎، سوائے اس کے کہ اس دن ایسا روزہ آ پڑے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو ۲؎ اور (رمضان کا) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو۔ اگر آسمان ابر آلود ہو جائے تو مہینے کے تیس دن شمار کر لو، پھر روزہ رکھنا بند کرو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 684]
اردو حاشہ:
1؎:
اس ممانعت کی حکمت یہ ہے کہ فرض روزے نفلی روزوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائیں اور کچھ لوگ انھیں فرض نہ سمجھ بیٹھیں،
لہذا تحفظ حدود کے لیے نبی اکرم ﷺ نے جانبین سے روزہ منع کر دیا کیونکہ امم سابقہ میں اس قسم کے تغیر و تبدل ہوا کرتے تھے جس سے زیادتی فی الدین کی راہ کھلتی تھی،
اس لیے اس سے منع کر دیا۔

2؎:
مثلاً پہلے سے جمعرات یا پیر یا ایام بیض کے روزے رکھنے کا معمول ہو اور یہ دن اتفاق سے رمضان سے دو یا ایک دن پہلے آ جائے تو اس کا روزہ رکھا جائے کہ یہ استقبال رمضان میں سے نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 684   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2335  
´شعبان کے روزے رکھتے ہوئے ماہ رمضان میں داخل ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھو، ہاں اگر کوئی آدمی پہلے سے روزہ رکھتا آ رہا ہے تو وہ ان دنوں کا روزہ رکھے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2335]
فوائد ومسائل:
(1) شعبان کو رمضان کے ساتھ ملانے کا مفہوم یہ ہے کہ شعبان میں روزے رکھے حتی کہ رمضان شروع ہو جائے۔

(2) شریعت کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عبادت اور عادت میں فرق کیا جانا چاہیے، اس لیے کہ اگر کسی نے یہ عادت بنائی ہو کہ وہ سوموار اور جمعرات کو مسنون روزے رکھتا ہو یا اتفاقا کوئی نذر مان لی یا کوئی قضا کا روزہ باقی ہو تو اس کے لیے رخصت ہے کہ رمضان شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے روزہ رکھ لے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2335