سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
14. بَابُ : كَمِ الشَّهْرُ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى الزُّهْرِيِّ فِي الْخَبَرِ عَنْ عَائِشَةَ
باب: مہینہ کتنے دنوں کا ہوتا ہے؟ نیز عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث میں زہری پر (راویوں کے) اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2134
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ حَدَّثَهُ. ح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمْ أَزَلْ حَرِيصًا أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنِ الْمَرْأَتَيْنِ مِنْ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّتَيْنِ , قَالَ اللَّهُ لَهُمَا: إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا سورة التحريم آية 4 , وَسَاقَ الْحَدِيثَ وَقَالَ فِيهِ: فَاعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْحَدِيثِ، حِينَ أَفْشَتْهُ حَفْصَةُ إِلَى عَائِشَةَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَكَانَ قَالَ: مَا أَنَا بِدَاخِلٍ عَلَيْهِنَّ شَهْرًا مِنْ شِدَّةِ مَوْجِدَتِهِ عَلَيْهِنَّ، حِينَ حَدَّثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَدِيثَهُنَّ، فَلَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ فَبَدَأَ بِهَا، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: إِنَّكَ قَدْ كُنْتَ آلَيْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، وَإِنَّا أَصْبَحْنَا مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً نَعُدُّهَا عَدَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مجھے برابر اس بات کا اشتیاق رہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبكما» اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لو (تو بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (التحریم: ۴) میں کیا ہے، پھر پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے انتیس راتوں تک اس بات کی وجہ سے جو حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ظاہر کر دی تھی کنارہ کشی اختیار کر لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ نے اپنی اس ناراضگی کی وجہ سے جو آپ کو اپنی عورتوں سے اس وقت ہوئی تھی جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بات آپ کو بتلائی یہ کہہ دیا تھا کہ میں ان کے پاس ایک مہینہ تک نہیں جاؤں گا، تو جب انتیس راتیں گزر گئیں تو آپ سب سے پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو ایک مہینے تک ہمارے پاس نہ آنے کی قسم کھائی تھی، اور ہم نے (ابھی) انتیسویں رات کی (ہی) صبح کی ہے، ہم ایک ایک کر کے اسے گن رہے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 27 (89)، والمظالم 25 (2468)، وتفسیر سورة التحریم 2-4 (4914، 4915)، وانکاح 83 (5191)، واللباس 31 (5843)، صحیح مسلم/الطلاق 5 (1479)، سنن الترمذی/تفسیر التحریم (3318)، (تحفة الأشراف: 10507)، مسند احمد 1/33 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 89  
´خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے`
«. . . وَكُنَّا نَتَنَاوَبُ النُّزُولَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ يَوْمًا وَأَنْزِلُ يَوْمًا، فَإِذَا نَزَلْتُ جِئْتُهُ بِخَبَرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنَ الْوَحْيِ وَغَيْرِهِ . . .»
. . . ہم دونوں باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن وہ آتا، ایک دن میں آتا۔ جس دن میں آتا اس دن کی وحی کی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ) دیگر باتوں کی اس کو خبر دے دیتا تھا اور جب وہ آتا تھا تو وہ بھی اسی طرح کرتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 89]

تشریح:
اس انصاری کا نام عتبان بن مالک تھا۔ اس روایت سے ثابت ہوا کہ خبر واحد پر اعتماد کرنا درست ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھبرا کر اس لیے پوچھا کہ ان دنوں مدینہ پر غسان کے بادشاہ کے حملہ کی افواہ گرم تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ شاید غسان کا بادشاہ آ گیا ہے۔ اسی لیے آپ گھبرا کر باہر نکلے پھر انصاری کی خبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تعجب ہوا کہ اس نے ایسی بے اصل بات کیوں کہی۔ اسی لیے بے ساختہ آپ کی زبان پر نعرہ تکبیر آ گیا۔ باری اس لیے مقرر کی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تاجر پیشہ تھے اور وہ انصاری بھائی بھی کاروباری تھے۔ اس لیے تاکہ اپنا کام بھی جاری رہے اور علوم نبوی سے بھی محرومی نہ ہو۔ معلوم ہوا کہ طلب معاش کے لیے بھی اہتمام ضروری ہے۔ اس حدیث کی باقی شرح کتاب النکاح میں آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 89   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2134  
´مہینہ کتنے دنوں کا ہوتا ہے؟ نیز عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث میں زہری پر (راویوں کے) اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مجھے برابر اس بات کا اشتیاق رہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دونوں بیویوں کے بارے میں پوچھوں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «إن تتوبا إلى اللہ فقد صغت قلوبكما» اگر تم دونوں اللہ تعالیٰ سے توبہ کر لو (تو بہتر ہے) یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں (التحریم: ۴) میں کیا ہے، پھر پوری حدیث بیان کی، اس میں ہے ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2134]
اردو حاشہ:
(1) ناراضی کے واقعے کی پوری تفصیل تو ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی لیکن اتنا جان لینا کافی ہے کہ آپ نے ایک راز حضرت حفصہؓ کے حوالے کیا تھا اور تاکید فرمائی تھی کہ کسی تک یہ راز نہ پہنچے مگر وہ اپنی فطری کمزوری کی بنا پر راز کو راز نہ رکھ سکیں۔ حضرت عائشہؓ کو بتا بیٹھیں اور ہوتے ہوتے یہ بات سب ازواج مطہراتؓ تک پہنچ گئی جس سے آپﷺ کو دکھ اٹھانا پڑا۔ ایک دو واقعات اور بھی ہوئے، ان تمام وجوہ سے آپ کی ناراضی شدید ہوگئی۔
(2) جب محسوس ہو کہ آدمی قسم توڑ رہا ہے تو اسے یاد کرایا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2134   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5201  
´کیا (مل کر) جدا ہو جانے والا دوبارہ ملنے پر سلام کرے؟`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ اپنے ایک کمرے میں تھے، اور کہا: اللہ کے رسول! السلام عليكم کیا عمر اندر آ سکتا ہے ۱؎؟۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5201]
فوائد ومسائل:
یہ ایک لمبی حدیث کا حصہ ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ نے پہلی اور دوسری بار اجازت طلب کی تو نہ ملی پھر طلب کی تو مل گئی۔
اس وقفے میں آپ بار بار السلام علیکم کہتے رہے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5201