صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
4. بَابُ اسْتِقْرَاضِ الإِبِلِ:
باب: اونٹ قرض لینا۔
حدیث نمبر: 2390
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بِمِنًى يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَغْلَظَ لَهُ، فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ: دَعُوهُ، فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا، وَاشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، وَقَالُوا: لَا نَجِدُ إِلَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ، قَالَ:" اشْتَرُوهُ فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں سلمہ بن کہیل نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، وہ ہمارے گھر میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور سخت سست کہا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو سزا دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کہنے دو۔ صاحب حق کے لیے کہنے کا حق ہوتا ہے اور اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کے اونٹ سے (جو اس نے آپ کو قرض دیا تھا) اچھی عمر ہی کا اونٹ مل رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی خرید کے اسے دے دو۔ کیونکہ تم میں اچھا وہی ہے جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔ (حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے)
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2390  
2390. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے اپنے قرض کا تقاضا کیا تو اس نے تقاضا کرنے میں سختی سے کام لیا۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کی طرف لپکے تو آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو کیونکہ صاحب حق کو بات کرنے کا حق ہے۔ اس کے لیے کوئی اونٹ خریدو اور اسے دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہمیں تو اس کے اونٹ (کی عمر) سے زیادہ عمر کا اونٹ ملتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہی خرید لو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو ادائیگی کے اعتبار سے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2390]
حدیث حاشیہ:
(1)
اجناس کے تبادلے میں، اگر وہ ہم جنس ہوں تو دو باتیں ضروری ہیں:
برابر ہونا اور نقد ہونا۔
اگر مختلف اجناس کا باہمی تبادلہ کرنا ہو تو ایک چیز کا ہونا ضروری ہے کہ سودا دست بدست ہو، البتہ کمی بیشی جائز ہے لیکن حیوانات میں کوئی پابندی نہیں۔
ان کا باہمی تبادلہ ادھار بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے اور ان میں کمی بیشی بھی درست ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے حکم سے ایک اونٹ لیتا اور صدقے کے دو اونٹ دینے کا وعدہ کرتا تھا۔
(مسند أحمد: 171/2)
البتہ بعض روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار پر فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3356)
امام شافعی ؒ نے ان احادیث کے درمیان تطبیق اس طرح دی ہے کہ یہاں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے، یعنی بيع الكالئ بالكالئ مراد ہے۔
(فتح الباري: 72/5)
بہرحال حیوانات کی خریدوفروخت کے متعلق وسعت ہے۔
ایک جانور کو دو یا اس سے زیادہ اسی جنس کے جانوروں کے عوض نقد اور ادھار پر فروخت کرنا جائز ہے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے دو غلاموں کے عوض ایک غلام خریدا تھا۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4113(1602)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2390