صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
7. بَابُ حُسْنِ الْقَضَاءِ:
باب: قرض اچھی طرح سے ادا کرنا۔
حدیث نمبر: 2394
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ مِسْعَرٌ: أُرَاهُ قَالَ: ضُحًى، فَقَالَ:" صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ لِي عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي".
ہم سے خلاد نے بیان کیا، ان سے مسعر نے بیان کیا، ان سے محارب بن دثار نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے۔ مسعر نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے چاشت کے وقت کا ذکر کیا۔ (کہ اس وقت خدمت نبوی میں حاضر ہوا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو رکعت نماز پڑھ لو۔ میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرض تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کیا، بلکہ زیادہ بھی دے دیا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3347  
´قرض کو بہتر طور پر ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرا کچھ قرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا، تو آپ نے مجھے ادا کیا اور زیادہ کر کے دیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3347]
فوائد ومسائل:
قرض ادا کرتے ہوئے اگر انسان اپنی خوشی سے کچھ مذید دے تو یہ احسان ہے۔
سود کے زمرے میں نہیں آتا۔
اس حدیث کو بنک کے سود کے حامی اپنی دلیل کے طور پرپیش کرتے ہیں۔
حالانکہ بنک اپنے گاہکوں سے احسان پر مبنی ایسا سلوک نہیں کرتے۔
بلکہ اصل زر سے زائد کا معاہدہ طے ہوتا ہے۔
جس کا لینا دینا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
اس حدیث میں واضح ہے کہ قرض پرکوئی اضافہ طے نہ تھا۔
نہ رسول اللہ ﷺ نے زائد دینے کا معاہدہ کیا تھا۔
نہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مطالبہ تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3347   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2394  
2394. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فر تھے۔ (راوی حدیث)حضرت مسعر کہتے ہیں کہ میرے گمان کے مطابق انھوں نے کہا: چاشت کا وقت تھا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: دورکعت ادا کرو۔ میرا آپ کے ذمے کچھ قرض تھا تو آپ نے وہ ادا کیا اور مجھے کچھ زیادہ بھی دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2394]
حدیث حاشیہ:
ایسے لوگ بہت ہی قابل تعریف ہیں جو خوش خوش قرض ادا کرکے سبکدوشی حاصل کرلیں۔
یہ اللہ کے نزدیک بڑے پیارے بندے ہیں۔
اچھی ادائیگی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ واجب حق سے کچھ زیادہ ہی دے دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2394   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2394  
2394. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فر تھے۔ (راوی حدیث)حضرت مسعر کہتے ہیں کہ میرے گمان کے مطابق انھوں نے کہا: چاشت کا وقت تھا۔ آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: دورکعت ادا کرو۔ میرا آپ کے ذمے کچھ قرض تھا تو آپ نے وہ ادا کیا اور مجھے کچھ زیادہ بھی دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2394]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کو دوسرے ذرائع سے معلوم ہوا تھا کہ حضرت جابر ؓ آج کل گھریلو مسائل کا شکار ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کی دلداری کا سامان کیا، دوران سفر میں ان کا ایک مریل اونٹ خریدا، مدینے پہنچ کر آپ نے اس کی قیمت ادا کی جو چاندی کی شکل میں تھی اور حضرت بلال ؓ کو کہا کہ انہیں اصل قیمت سے ایک قیراط زیادہ دینا۔
(2)
یہ اضافہ رسول اللہ ﷺ کا تبرک تھا جسے حضرت جابر ؓ بہت حفاظت سے رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کی اس فیاضی پر امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کیا ہے کہ ادائیگی کے وقت خوش دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2394