صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
8. بَابُ إِذَا قَضَى دُونَ حَقِّهِ أَوْ حَلَّلَهُ فَهْوَ جَائِزٌ:
باب: اگر مقروض قرض خواہ کے حق میں کم ادا کرے۔
حدیث نمبر: 2395
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ،" أَنَّ أَبَاهُ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَاشْتَدَّ الْغُرَمَاءُ فِي حُقُوقِهِمْ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُمْ، أَنْ يَقْبَلُوا تَمْرَ حَائِطِي وَيُحَلِّلُوا أَبِي، فَأَبَوْا، فَلَمْ يُعْطِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَائِطِي، وَقَالَ: سَنَغْدُو عَلَيْكَ، فَغَدَا عَلَيْنَا حِينَ أَصْبَحَ، فَطَافَ فِي النَّخْلِ وَدَعَا فِي ثَمَرِهَا بِالْبَرَكَةِ فَجَدَدْتُهَا، فَقَضَيْتُهُمْ وَبَقِيَ لَنَا مِنْ تَمْرِهَا".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے بیان کیا، ان سے کعب بن مالک نے بیان کیا، اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ان کے والد (عبداللہ رضی اللہ عنہ) احد کے دن شہید کر دیئے گئے تھے۔ ان پر قرض چلا آ رہا تھا۔ قرض خواہوں نے اپنے حق کے مطالبے میں سختی اختیار کی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرما لیا کہ وہ میرے باغ کی کھجور لے لیں۔ اور میرے والد کو معاف کر دیں۔ لیکن قرض خواہوں نے اس سے انکار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں میرے باغ کا میوہ نہیں دیا۔ اور فرمایا کہ ہم صبح کو تمہارے باغ میں آئیں گے۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے باغ میں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درختوں میں پھرتے رہے۔ اور اس کے میوے میں برکت کی دعا فرماتے رہے۔ پھر میں نے کھجور توڑی اور ان کا تمام قرض ادا کرنے کے بعد بھی کھجور باقی بچ گئی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2434  
´میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد وفات پا گئے، اور اپنے اوپر ایک یہودی کے تیس وسق کھجور قرض چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے مہلت مانگی لیکن اس نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس سے اس کی سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور آپ نے اس سے بات کی کہ وہ ان کھجوروں کو جو ان کے درخت پر ہیں اپنے قرض کے بدلہ لے لے، لیکن وہ نہیں مانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ انہیں مہلت دینے پر بھی راضی نہ ہوا تو رسول اللہ صلی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئےتھے۔

(2)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد پر اور بھی بہت سے لوگوں کا قرض تھا۔
ان کے بارے میں دوسری احادیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
یہ یہودی ان قرض خواہوں میں سے ایک تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاستقراض واداء الدیون .......، باب إذا قضی دون حقه أو حلله فھو جائز، حدیث: 2395)

(3)
اس یہودی کےسوا دوسرے قرض خواہوں کو ادائیگی کرتےوقت خود نبیﷺنےماپ کر ہر ایک کو اس كا قرض ادا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الاستقراض، باب الشفاعة فی وضع الدین حدیث: 2405)

(4)
کھانے پینے کی چیزوں میں يہ برکت رسول اللہ ﷺکا معجزہ ہے جو متعدد مواقع پرظاہر ہوا۔

(5)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایمان اتنا زیادہ تھا کہ انھیں معجزہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی یقین ہو گیا کہ یہ واقعہ یوں پيشں آئے گا۔
اس سےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت اورشان کا اظہار ہوتا ہے۔

(6)
وسق ساٹھ صاع کےبرابر ہوتا ہے جس کی کل مقدار ہمارے یہاں کےاعتبار سےتقریباً چار من بنتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2434   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2884  
´مال چھوڑ کر مرنے والے قرضدار کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلانا اور اس کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2884]
فوائد ومسائل:

میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔
مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔
اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔


صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔
حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔
اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔
جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔
تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔
آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔
(اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔
اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔
کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔
خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔
چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔
اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔
ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔
(صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔
اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔
اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔
بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔
جعلنا اللہ منھم، آمین۔


وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔
اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2884   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2395  
2395. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان پر قرض تھا تو قرض خواہوں نے حقوق طلبی میں سختی سے کام لیا۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے قرض خواہوں سے فرمایا کہ وہ ان کے باغ کا پھل قبول کر لیں اور ان کے والد کو قرض سے بری کردیں، لیکن ان لوگوں نے اس سے انکار کردیا۔ نبی ﷺ نے انھیں میرا باغ نہ دیا بلکہ مجھ سے فرمایا: کل تمھارے باغ میں آؤں گا۔ چنانچہ آپ ﷺ صبح تشریف لائے تو میرے باغ کا پورا چکر لگایا اور اس کے پھل میں برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد میں نے پھل اتارا، اس میں سے قرض خواہوں کا قرض بھی اداکردیا اور ہمارے لیے کچھ کھجوریں بچ بھی گئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2395]
حدیث حاشیہ:
مضمون باب اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے شہید صحابی ؓ کے قرض خواہوں سے کچھ قرض معاف کر دینے کے لیے فرمایا۔
جب وہ لوگ تیار نہ ہوئے، تو رسول کریم ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے باغ میں دعائے برکت فرمائی۔
جس کی وجہ سے سارا قرض پورا ادا ہونے کے بعد بھی کھجوریں باقی رہ گئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2395   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2395  
2395. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان پر قرض تھا تو قرض خواہوں نے حقوق طلبی میں سختی سے کام لیا۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے قرض خواہوں سے فرمایا کہ وہ ان کے باغ کا پھل قبول کر لیں اور ان کے والد کو قرض سے بری کردیں، لیکن ان لوگوں نے اس سے انکار کردیا۔ نبی ﷺ نے انھیں میرا باغ نہ دیا بلکہ مجھ سے فرمایا: کل تمھارے باغ میں آؤں گا۔ چنانچہ آپ ﷺ صبح تشریف لائے تو میرے باغ کا پورا چکر لگایا اور اس کے پھل میں برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد میں نے پھل اتارا، اس میں سے قرض خواہوں کا قرض بھی اداکردیا اور ہمارے لیے کچھ کھجوریں بچ بھی گئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2395]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں کو حضرت جابر ؓ کے باغ کا پھل لینے کی پیش کش فرمائی لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پھل کی مقدار ان کے قرض سے کم تھی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں راضی کرنا چاہا۔
اس پر امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کی بنیاد رکھی ہے کہ اگر کسی کو اس کے حق سے کم دینا جائز نہ ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے لیکن کم دینے کی صورت میں حق دار کی رضا مندی شرط ہے، جب وہ راضی نہ ہوئے تو آپ نے اس پر اصرار نہیں کیا بلکہ معاملہ اگلے دن پر چھوڑ دیا (2)
جب آدمی کو قرض کا کچھ حصہ معاف کرنے کا اختیار ہے تو وہ تمام قرض بھی معاف کر سکتا ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
اس مقام پر امام بخاری ؒ نے ایک وہم دور کیا ہے کہ کسی نے دوسرے سے دس ہزار قرض لینا تھا، جب وہ آٹھ ہزار لینے پر راضی ہو گیا تو دو ہزار مقروض کے ہاں بلا عوض رہ گئے، شاید یہ سود ہو۔
امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور کیا کہ قرض خواہ کو اپنا قرض معاف کرنے کا اختیار ہے، خواہ کچھ حصہ چھوڑ دے یا تمام قرض اس پر صدقہ کر دے۔
قرآن کریم میں اس کا اشارہ موجود ہے۔
(البقرة: 280: 2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2395