صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
11. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى مَنْ تَرَكَ دَيْنًا:
باب: قرض دار کی نماز جنازہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2398
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ، وَمَنْ تَرَكَ كَلًّا فَإِلَيْنَا".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص (اپنے انتقال کے وقت) مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جو قرض چھوڑے تو وہ ہمارے ذمہ ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2090  
´ترکہ کے مستحق میت کے وارث ہیں۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے (مرنے کے بعد) کوئی مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور جس نے ایسی اولاد چھوڑی جس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے تو اس کی کفالت میرے ذمہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2090]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
ایسے مسلمان یتیموں اوربیواؤں کی کفالت اس حدیث کی رُوسے مسلم حاکم کے ذمّے ہے کہ جن کا مورث اُن کے لیے کوئی وراثت چھوڑکرنہ مراہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2090   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2398  
2398. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس نے کوئی مال چھوڑاتو وہ اس کے ورثاء کا حق ہے اور جس نے کوئی بوجھ (اہل وعیال یا قرض) چھوڑا تو وہ ہمارے ذمے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2398]
حدیث حاشیہ:
(1)
بظاہر اس عنوان کا مقام کتاب الجنائز ہے، پھر اس حدیث میں نماز جنازہ کا کوئی ذکر نہیں ہے؟ دراصل امام بخاری ؒ نے آغاز کار کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ابتدائے اسلام میں اگر کوئی مر جاتا اور اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ نہ چھوڑ جاتا تو آپ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھایا کرتے تھے۔
بعد میں جب فتوحات کا زمانہ آیا تو آپ نے میت کا قرض بیت المال کے ذمے کر دیا۔
(2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مرنے والے کے پاس قرض کی ادائیگی کا سامان نہیں ہے تو اس کا قرض بیت المال کی طرف سے ادا کیا جائے گا، لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ لوگ قرض لے کر فضول خرچیاں کریں اور اس امید پر اسراف کریں کہ بیت المال کی طرف سے ادا کر دیا جائے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس پہلو پر کڑی نظر رکھے تاکہ لوگ اس سہولت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2398