سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
44. بَابُ : ثَوَابِ مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ فِي الْخَبَرِ فِي ذَلِكَ
باب: اللہ کی راہ میں ایک دن کے روزہ رکھنے کا ثواب، اور اس سلسلہ کی روایت میں سہیل بن ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2246
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ زَحْزَحَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ بِذَلِكَ الْيَوْمِ سَبْعِينَ خَرِيفًا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ (یعنی جہاد یا اس کے سفر) میں ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اسے اس دن کے بدلے جہنم سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل الجھاد 3 (1622)، سنن ابن ماجہ/الصوم 34 (1718)، (تحفة الأشراف: 18624) حم2/300، 357 (صحیح) (مزی نے تحفة الاشراف میں ابن حیویہ کی روایت پر اعتماد کرتے ہوئے اس حدیث کو مراسیل میں ذکر کیا ہے (18624) اس لیے کہ اس کے نسخہ (ہ) میں ’’عن أبي هريرة‘‘ ساقط ہے، اور ابن الاحمر اور ابن سیار نیز سنن صغریٰ سب میں ’’عن ابی ہریرة“ موجود ہے، اور مسند میں بھی ایسے ہی ہے) (ملاحظہ ہو: السنن الکبریٰ: 2564)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2246  
´اللہ کی راہ میں ایک دن کے روزہ رکھنے کا ثواب، اور اس سلسلہ کی روایت میں سہیل بن ابوصالح پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کی راہ (یعنی جہاد یا اس کے سفر) میں ایک دن کا روزہ رکھا، اللہ تعالیٰ اسے اس دن کے بدلے جہنم سے ستر سال کی دوری پر کر دے گا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2246]
اردو حاشہ:
حدیث میں ﴿فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ کے الفاظ ہیں ہر اس نیک عمل پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لیے کیا جائے، چونکہ قرآن مجید میں ﴿فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ سے مراد عموماً جہاد ہوتا ہے، لہٰذا ترجمہ اس طرح بھی ہو سکتا ہے: جو شخص جہاد کے دوران میں روزہ رکھے۔ نیز ﴿فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ اللہ تعالیٰ کے راستے میں کے تحت طلب علم یا حج وعمرہ وغیرہ کے سفر میں روزہ رکھنا بھی آجاتا ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2246   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1718  
´(فی سبیل اللہ) جہاد میں روزے رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جہاد کے سفر میں ایک دن بھی روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس ایک دن کے روزے کی وجہ سے اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال کی مسافت کی مقدار میں دور کر دے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1718]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فا ضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ گزشتہ روایت 1717 اس سے کفایت کرتی ہے غا لباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے اللہ کی راہ میں کا مطلب کفار سے جہاد کے وقت رکھنا ہے بشرطیکہ اس سے کمزوری پیدا ہوجا نے کا احتمال نہ ہو یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ کی رضا کے حصو ل کے لئے اس کے حکم کی تعمیل میں روزہ رکھا خلوص نیت سے جو کام کیا جا ئے وہ اللہ ہی کی راہ میں ہوتا ہے۔

(3)
ستر سال کے فاصلے کا مطلب یہ ہے کہ جہنم سے اتنا دور کر دے گا جتنا فا صلہ ستر سا ل میں طے کیا جا تا ہے اس سے مرا د بہت زیا دہ دور بھی ہو سکتا ہے فا صلے کی دوری کو واضح کر نے کے لئے ستر سا ل کی مسافت سے تشبیہ دی گئی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1718   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1622  
´دوران جہاد روزہ رکھنے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جہاد کرتے وقت ایک دن کا روزہ رکھے اللہ تعالیٰ اسے ستر سال کی مسافت تک جہنم سے دور کرے گا ۱؎۔ عروہ بن زبیر اور سلیمان بن یسار میں سے ایک نے ستر برس کہا ہے اور دوسرے نے چالیس برس۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب فضائل الجهاد/حدیث: 1622]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جہاد کرتے وقت روزہ رکھنے کی فضیلت کے حامل وہ مجاہدین ہیں جنہیں روزہ رکھ کر کمزوری کا احساس نہ ہو،
اورجنہیں کمزوری لاحق ہونے کا خدشہ ہو وہ اس فضیلت کے حامل نہیں ہیں۔

نوٹ:
(اگلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے،
ورنہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1622