صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
18. بَابُ الشَّفَاعَةِ فِي وَضْعِ الدَّيْنِ:
باب: قرض میں کمی کی سفارش کرنا۔
حدیث نمبر: 2405
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُصِيبَ عَبْدُ اللَّهِ وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، فَطَلَبْتُ إِلَى أَصْحَابِ الدَّيْنِ أَنْ يَضَعُوا بَعْضًا مِنْ دَيْنِهِ، فَأَبَوْا، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَشْفَعْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ، فَأَبَوْا، فَقَالَ: صَنِّفْ تَمْرَكَ كُلَّ شَيْءٍ مِنْهُ عَلَى حِدَتِهِ، عِذْقَ ابْنِ زَيْدٍ عَلَى حِدَةٍ، وَاللِّينَ عَلَى حِدَةٍ، وَالْعَجْوَةَ عَلَى حِدَةٍ، ثُمَّ أَحْضِرْهُمْ حَتَّى آتِيَكَ، فَفَعَلْتُ، ثُمَّ جَاءَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَعَدَ عَلَيْهِ، وَكَالَ لِكُلِّ رَجُلٍ حَتَّى اسْتَوْفَى وَبَقِيَ التَّمْرُ كَمَا هُوَ كَأَنَّهُ لَمْ يُمَسَّ.
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے، ان سے عامر نے، اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (میرے والد) عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے بال بچے اور قرض چھوڑ گئے۔ میں قرض خواہوں کے پاس گیا کہ اپنا کچھ قرض معاف کر دیں، لیکن انہوں نے انکار کیا، پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی سفارش کروائی۔ انہوں نے اس کے باوجود بھی انکار کیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اپنے باغ کی) تمام کھجور کی قسمیں الگ الگ کر لو۔ عذق بن زید الگ، لین الگ، اور عجوہ الگ (یہ سب عمدہ قسم کی کھجوروں کے نام ہیں) اس کے بعد قرض خواہوں کو بلاؤ اور میں بھی آؤں گا۔ چنانچہ میں نے ایسا کر دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ڈھیر پر بیٹھ گئے۔ اور ہر قرض خواہ کے لیے ماپ شروع کر دی۔ یہاں تک کہ سب کا قرض پورا ہو گیا اور کھجور اسی طرح باقی بچ رہی جیسے پہلے تھی۔ گویا کسی نے اسے چھوا تک نہیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3347  
´قرض کو بہتر طور پر ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرا کچھ قرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا، تو آپ نے مجھے ادا کیا اور زیادہ کر کے دیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3347]
فوائد ومسائل:
قرض ادا کرتے ہوئے اگر انسان اپنی خوشی سے کچھ مذید دے تو یہ احسان ہے۔
سود کے زمرے میں نہیں آتا۔
اس حدیث کو بنک کے سود کے حامی اپنی دلیل کے طور پرپیش کرتے ہیں۔
حالانکہ بنک اپنے گاہکوں سے احسان پر مبنی ایسا سلوک نہیں کرتے۔
بلکہ اصل زر سے زائد کا معاہدہ طے ہوتا ہے۔
جس کا لینا دینا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔
اس حدیث میں واضح ہے کہ قرض پرکوئی اضافہ طے نہ تھا۔
نہ رسول اللہ ﷺ نے زائد دینے کا معاہدہ کیا تھا۔
نہ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے مطالبہ تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3347