صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ -- کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
18. بَابُ الشَّفَاعَةِ فِي وَضْعِ الدَّيْنِ:
باب: قرض میں کمی کی سفارش کرنا۔
حدیث نمبر: 2406
وَغَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا، فَأَزْحَفَ الْجَمَلُ فَتَخَلَّفَ عَلَيَّ فَوَكَزَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَلْفِهِ، قَالَ: بِعْنِيهِ، وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا دَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟ قُلْتُ: ثَيِّبًا أُصِيبَ عَبْدُ اللَّهِ وَتَرَكَ جَوَارِيَ صِغَارًا، فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا تُعَلِّمُهُنَّ وَتُؤَدِّبُهُنَّ، ثُمَّ قَالَ: ائْتِ أَهْلَكَ، فَقَدِمْتُ، فَأَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِ الْجَمَلِ فَلَامَنِي، فَأَخْبَرْتُهُ بِإِعْيَاءِ الْجَمَلِ وَبِالَّذِي كَانَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَكْزِهِ إِيَّاهُ، فَلَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ إِلَيْهِ بِالْجَمَلِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ، وَالْجَمَلَ وَسَهْمِي مَعَ الْقَوْمِ".
‏‏‏‏ اور ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد میں ایک اونٹ پر سوار ہو کر گیا۔ اونٹ تھک گیا۔ اس لیے میں لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیچھے سے مارا اور فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔ مدینہ تک اس پر سواری کی تمہیں اجازت ہے۔ پھر جب ہم مدینہ سے قریب ہوئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی، عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے ابھی نئی شادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا کہ بیوہ سے۔ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے کئی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اس لیے میں نے بیوہ سے کی تاکہ انہیں تعلیم دے اور ادب سکھاتی رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا اب اپنے گھر جاؤ۔ چنانچہ میں گھر گیا۔ میں نے جب اپنے ماموں سے اونٹ بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ملامت کی۔ اس لیے میں نے ان سے اونٹ کے تھک جانے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کو مارنے کا بھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو میں بھی صبح کے وقت اونٹ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اونٹ کی قیمت بھی دے دی، اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس بخش دیا اور قوم کے ساتھ میرا (مال غنیمت کا) حصہ بھی مجھ کو بخش دیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2406  
2406. حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ ایک اونٹ پر جہاد کیا۔ وہ اونٹ تھک ہار کر لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔ نبی ﷺ نے اسے پیچھے سے چھڑی ماری اور فرمایا: اسے میرے ہاتھ فروخت کردو، تاہم تمھیں مدینے تک اس پر سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب آئے تو میں نے آگے جانے کی اجازت طلب کی اور بتایا کہ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: دوشیزہ سے نکاح کیا ہے یا شوہر دیدہ سے؟ میں نے عرض کیا: شوہر آشنا سے شادی کی ہے وہ اس لیے کہ (میرے والد گرامی)حضرت عبد اللہ ؓ شہید ہو گئے تو انھوں نے چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑیں، اس لیے میں نے ایک بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ انھیں تعلیم دے اورتہذیب سکھائے۔ پھر آپ نے فرمایا: تم اپنے اہل خانہ کے ہاں جاؤ۔ میں نے گھر آکر اپنے ماموں کو اپنا اونٹ فروخت کرنے کا بتایا تو اس نے مجھے بڑی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2406]
حدیث حاشیہ:
ماموں نے اس وجہ سے ملامت کی ہوگی کہ آنحضرت ﷺ کے ہاتھ اونٹ بیچنا کیا ضروری تھا۔
یوں ہی آپ کو دے دیا ہوتا۔
بعض نے کہا کہ اس بات پر کہ ایک ہی اونٹ ہمارے پاس تھا اس سے گھر کا کام کاج نکلتا تھا وہ بھی تو نے بیچ ڈالا۔
اب تکلیف ہوگی۔
بعض نے کہا ماموں سے جد بن قیس مراد ہے وہ منافق تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2406   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2406  
2406. حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ ایک اونٹ پر جہاد کیا۔ وہ اونٹ تھک ہار کر لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔ نبی ﷺ نے اسے پیچھے سے چھڑی ماری اور فرمایا: اسے میرے ہاتھ فروخت کردو، تاہم تمھیں مدینے تک اس پر سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب آئے تو میں نے آگے جانے کی اجازت طلب کی اور بتایا کہ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: دوشیزہ سے نکاح کیا ہے یا شوہر دیدہ سے؟ میں نے عرض کیا: شوہر آشنا سے شادی کی ہے وہ اس لیے کہ (میرے والد گرامی)حضرت عبد اللہ ؓ شہید ہو گئے تو انھوں نے چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑیں، اس لیے میں نے ایک بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ انھیں تعلیم دے اورتہذیب سکھائے۔ پھر آپ نے فرمایا: تم اپنے اہل خانہ کے ہاں جاؤ۔ میں نے گھر آکر اپنے ماموں کو اپنا اونٹ فروخت کرنے کا بتایا تو اس نے مجھے بڑی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2406]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں سے خود سفارش کی کہ قرض میں کچھ کمی کر دیں لیکن انہوں نے آپ کی سفارش بھی ٹھکرا دی۔
معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑے لعین قسم کے لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی بات بھی نہ مانی۔
اس روایت کو مذکورہ عنوان کے تحت لانے کا یہی مقصد ہے۔
(2)
حضرت جابر ؓ کے ماموں نے اونٹ فروخت کرنے پر انہیں طعن و ملامت کی، محدثین نے اس کی مختلف توجیہات بیان کی ہیں، مثلاً:
٭ یہ لوگ کھیتی باڑی اور باغات والے تھے، جن کا اونٹ کے بغیر گزارا نہیں چل سکتا تھا، اس لیے اونٹ بیچنے پر ملامت کی کہ انہیں خود اس کی ضرورت تھی۔
٭ آپ کو بیچنے کی کیا ضرورت تھی، رسول اللہ ﷺ کو یہ اونٹ ہبہ کیوں نہ کر دیا۔
٭ حضرت جابر ؓ کے ماموں میں نفاق تھا، اس لیے حضرت جابر ؓ کو اس نے ملامت کی۔
اس کا نام جد بن قیس ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2406