سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
70. بَابُ : صَوْمِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم - بِأَبِي هُوَ وَأُمِّي - وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں) کا روزہ اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2370
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ أَبِي , أَنْبَأَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ غُرَّةِ كُلِّ شَهْرٍ، وَقَلَّمَا يُفْطِرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے ابتدائی تین دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور کم ہی ایسا ہوتا کہ آپ جمعہ کے دن روزہ سے نہ رہے ہوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصوم68 (2450)، سنن الترمذی/الصوم41 (742)، سنن ابن ماجہ/الصوم37 (1725) مختصرا (تحفة الأشراف: 9206)، مسند احمد 1/406 (حسن)»

وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری کی ایک حدیث (صوم/۱۹۸۴) میں خاص جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے صراحت کے ساتھ ممانعت آئی ہے، تو اس حدیث کا مطلب بقول حافظ ابن حجر یہ ہے کہ اگر ان تین ایام بیض میں جمعہ آ پڑتا تو جمعہ کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کے وجہ سے آپ روزہ نہیں توڑتے تھے، بلکہ رکھ لیتے تھے، ممانعت تو خاص ایک دن جمعہ کو روزہ رکھنے کی ہے، یا بقول حافظ عینی: ایک دن آگے یا پیچھے ملا کر جمعہ کو روزہ رکھتے تھے، لیکن قابل قبول توجیہ حافظ ابن حجر کی ہی ہے، کیونکہ آپ تین دن ایام بیض کے روزہ تو رکھتے ہی تھے، اور پھر دو دن جمعہ کی مناسبت سے بھی رکھتے ہوں، یہ کہیں منقول نہیں ہے، یا پھر یہ کہا جائے کہ خاص اکیلے جمعہ کے دن کی ممانعت امت کے لیے ہے، اور روزہ رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2370  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں) کا روزہ اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے ابتدائی تین دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور کم ہی ایسا ہوتا کہ آپ جمعہ کے دن روزہ سے نہ رہے ہوں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2370]
اردو حاشہ:
(1) شروع سے یعنی کسی مہینے میں۔ اور بعض اوقات درمیان سے تین دن روزہ رکھتے تھے اور کبھی آخر مہینے سے بھی رکھ لیتے تھے۔
(2) جمعۃ المبارک کے دن۔ یعنی جمعرات سمیت، ورنہ اکیلے جمعے کے روزے سے تو آپ نے منع فرمایا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الصوم، حدیث: 1985، وصحیح مسلم، الصیام، حدیث: 1144) جمعرات کا روزہ آپ کا معمول تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2370   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2450  
´ہر مہینے تین روزے رکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے کے شروع میں تین دن روزے رکھتے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2450]
فوائد ومسائل:
ایام بیض کی فضیلت ثابت ہے۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات بلا تعیین و تخصیص تین روزے رکھا کرتے تھے، تاکہ وجوب نہ سمجھا جائے۔
اس طرح بعض دفعہ آپ مہینے کی ابتدا میں تین روزے رکھتے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علم میں آپ کے یہی ابتدائی دن آئے، چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق بیان کر دیا۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے علم میں آپ کے ایام بیض کے روزے تھے جو آپ اکثر رکھا کرتے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نےاس کے مطابق بیان کر دیا۔
اس لیے ان دونوں کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2450