سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
72. بَابُ : النَّهْىِ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ، وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ، عَلَى مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فِي الْخَبَرِ فِيهِ
باب: صیام الدھر (ہمیشہ روزہ رکھنے) کی ممانعت، اور اس سلسلہ کی حدیث میں مطرف بن عبداللہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2382
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَذُكِرَ عِنْدَهُ رَجُلٌ يَصُومُ الدَّهْرَ , قَالَ:" لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ".
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور آپ کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا تھا جو ہمیشہ روزہ رکھتا تھا تو آپ نے فرمایا: اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ ہی افطار کیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصوم28 (1705)، (تحفة الأشراف: 5350)، مسند احمد 5/24، 25، 26، سنن الدارمی/الصوم37 (1785) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1705  
´ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے نہ تو روزہ رکھا، اور نہ ہی افطار کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1705]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عبادت میں شرعی حد سے تجا وز کرنا منع ہے
(2)
ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے۔

(3)
نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے روزہ رکھنے کا ثواب ملا نہ روزہ چھوڑنے کا آرام نصیب ہوا گو یا نہ آخروی نہ روحا نی فا ئدہ حاصل ہوا اور نہ دنیوی اور نہ جسمانی فائدہ حاصل ہوا بلکہ نبی اکرم ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے وہ صورت بن سکتی ہے کہ نیکی برباد گنا لازم۔

(4)
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص عیدین اور ایا م تشریق کے روزے نہ رکھے باقی گیارہ مہینے پچیس دن روزے رکھتا ہے تو یہ شخص ہمیشہ روزے رکھنے والا شمار ہو گا کیونکہ اس نے سال میں پا نچ دن روزے نہیں رکھے لیکن غور کیا جائے تو اس عمل سے اس ممانعت کا مقصد ہی فو ت ہو جاتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ روزے رکھنے شروع کیے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں ان سے منع فرما دیا ان کی بار بار کی درخوا ست پر زیادہ سے زیادہ جو اجازت دی وہ داؤد علیہ السلام والے روزے کی تھی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا جب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اس سے افضل عمل کی طا قت رکھتا ہوں یعنی اس سے زیا دہ روزے رکھ سکتا ہوں تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا (لَااَفْضَل مِنْ ذٰلِكَ)
 اس سے کوئی افضل نہیں۔ (صحیح البخاري، الصوم، باب صوم الدھر، حدیث: 1967)
 اس سے معلوم ہو تا ہے کہ سال میں گیارہ مہینے پچیس دن روزے رکھنے والے کو بھی اتنا ثواب نہیں مل سکتا جتنا صوم داؤد رحمۃ اللہ علیہ رکھنے والے کو ملتا ہے لہٰذا اگر عیدین اور ایا م تشریق کو چھوڑ کر سارا سال روزے رکھنے جا ئز بھی مان لیا جائے تو کم محنت کے سا تھ زیادہ ثوا ب حا صل کرنا بہتر ہے نہ کہ زیا دہ محنت کر کے کم ثواب حا صل کرنا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1705