سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
76. بَابُ : صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ فِي ذَلِكَ لِخَبَرِ عَبْدِ
باب: ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2392
أَخْبَرَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: زَوَّجَنِي أَبِي امْرَأَةً، فَجَاءَ يَزُورُهَا , فَقَالَ: كَيْفَ تَرَيْنَ بَعْلَكِ؟ فَقَالَتْ: نِعْمَ الرَّجُلُ مِنْ رَجُلٍ لَا يَنَامُ اللَّيْلَ، وَلَا يُفْطِرُ النَّهَارَ، فَوَقَعَ بِي وَقَالَ: زَوَّجْتُكَ امْرَأَةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَعَضَلْتَهَا , قَالَ: فَجَعَلْتُ لَا أَلْتَفِتُ إِلَى قَوْلِهِ مِمَّا أَرَى عِنْدِي مِنَ الْقُوَّةِ وَالِاجْتِهَادِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" لَكِنِّي أَنَا أَقُومُ وَأَنَامُ وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ، فَقُمْ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ"، قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ"، فَقُلْتُ: أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ , قَالَ:" صُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا" قُلْتُ: أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَالَ:" اقْرَأِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ، ثُمَّ انْتَهَى إِلَى خَمْسَ عَشْرَةَ، وَأَنَا أَقُولُ أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے میری شادی ایک عورت سے کر دی، وہ اس سے ملاقات کے لیے آئے، تو اس سے پوچھا: تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ اس نے کہا: کیا ہی بہترین آدمی ہیں نہ رات میں سوتے ہیں اور نہ دن میں کھاتے پیتے ہیں، ۱؎ تو انہوں نے مجھے سخت سست کہا اور بولے: میں نے تیری شادی ایک مسلمان لڑکی سے کی ہے، اور تو اسے چھوڑے رکھے ہے۔ میں نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا اس لیے کہ میں اپنے اندر قوت اور (نیکیوں میں) آگے بڑھنے کی صلاحیت پاتا تھا، یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: میں رات میں قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں اور کھاتا پیتا بھی ہوں، تو تم بھی قیام کرو اور سوؤ بھی۔ اور روزہ رکھو اور افطار بھی کرو، ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: تو پھر تم «صیام داودی» رکھا کرو، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن کھاؤ پیو، میں نے عرض کیا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: ہر مہینہ ایک مرتبہ قرآن پڑھا کرو، پھر آپ (کم کرتے کرتے) پندرہ دن پر آ کر ٹھہر گئے، اور میں کہتا ہی رہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2390 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی رات میں قیام کرتے ہیں اور دن میں روزے سے رہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1976  
´ہمیشہ روزہ رکھنا`
«. . . فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ . . .»
. . . فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بے روزہ کے رہ کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1976]

فقہ الحدیث
منکرین اعتراض کرتے ہیں:
امام بخاری صائم الدہر رہا کرتے تھے، جیسا کہ کتاب طبقات کبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی، مطبوعہ مصر [50/1] امام بخاری کے حال میں لکھا ہے:
«محمد بن إسماعيل البخاري، كان صائم الدھر، وجاع حتي انتھي أكله كل يوم إلي تمرة أو لوزة.»
محمد بن اسماعیل بخاری صائم الدہر تھے اور اتنی فاقہ کشی کی کہ ان کی روزانہ کی غذا ایک خرما یا ایک بادام تک پہنچ گئی۔
{أقول:} اے جناب! آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کا مطلب نہیں سمجھا، وہ ہرگز حدیث کے خلاف عامل نہیں ہوئے، بلکہ حدیث میں جیسا مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو کہا گیا ہے، ویسا ہی امام بخاری رحمہ اللہ کرتے اور پھر بقیہ ایام نہایت کم خوراکی سے بسر کرتے، امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کہ یہ معنی ہیں، ورنہ جس معنی میں آپ نے سمجھا ہے، اس اعتبار سے شعرانی کی عبارت میں تناقض ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دن کو کھائیں بھی (ایک کھجور یا بادام ہی سہی) اور پھر صائم بھی ہوں؟ «ھل ھذا إلا تناقض!»

مطلب یہ ہے کہ ان کی اس قدر کم خوراکی بھی صیام کے مثل ہے، یہ نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھاتے ہی نہ تھے،
اسی طبقات کبریٰ للشعرانی میں ہے:
ابوالحسن یوسف بن ابی ذر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے چالیس سال تک نانخورش نہیں کھایا، صرف خشک روٹیوں پر گزارا کرتے رہے، جب علیل ہوئے تو بہ تجویز شیوخ روٹیوں کے ساتھ شکر کھانی منظور کی۔ ۱؎

جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھایا بھی کرتے تھے، لیکن چونکہ یہ کھانا اور نہ کھانا دونوں ایک برابر تھا، لہٰذا ان کو صائم الدہر کہا گیا، صائم الدہر کا وہ مطلب نہیں ہے، جو آپ نے سمجھا ہے کہ ہمیشہ روزہ ہی رکھا کرتے تھے، مطلقاً کچھ کھایا ہی نہیں، بلکہ کچھ ضرور کھاتے، پس یہ عمل ہرگز حدیث کے خلاف نہیں ہوا۔ ۲؎

امام نے تو بقدم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل دنیا گزاری۔
------------------
۱؎ [ھدي الساري:ص،481]، [تغليق التعليق 398/5]، [الطبقات الكبري:ص:92]
۲؎ علاوہ ازیں شعرانی نے طبقات میں امام بخاری کے متعلق مذکورہ عمل کی کوئی سند بیان نہیں کی، کیونکہ مذکورہ عمل کے پایہ ثبوت کو پہنچنے کے بعد ہی کسی توجیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ «إذ ليس فيلس!»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 132   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2392  
´ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے میری شادی ایک عورت سے کر دی، وہ اس سے ملاقات کے لیے آئے، تو اس سے پوچھا: تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ اس نے کہا: کیا ہی بہترین آدمی ہیں نہ رات میں سوتے ہیں اور نہ دن میں کھاتے پیتے ہیں، ۱؎ تو انہوں نے مجھے سخت سست کہا اور بولے: میں نے تیری شادی ایک مسلمان لڑکی سے کی ہے، اور تو اسے چھوڑے رکھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2392]
اردو حاشہ:
اس حدیث میں بھی راوی نے اختصار کیا ہے۔ اسی روایت کی دوسری اسانید سے مروی الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بار بار اصرار کرنے پر رسول اللہﷺ ایک ماہ، پچیس دن، پھر بیس، پندرہ، دس، سات، پانچ سے گزرتے ہوئے تین دن پر آگئے تھے، یعنی تین راتوں میں قرآن ختم کر لیا کر۔ اس سے زائد کی اجازت نہیں دی تاکہ صحیح تلفظ، توجہ اور حضور قلب سے اسے پڑھا جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2392   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1706  
´ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1706]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہو اکہ ہمیشہ روزے رکھنے والے کو با لکل ثواب نہیں ملتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1706   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2427  
´سدا نفلی روزے سے رہنا۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے فرمایا: کیا مجھ سے یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو: میں ضرور رات میں قیام کروں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا؟ کہا: میرا خیال ہے اس پر انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیام اللیل کرو اور سوؤ بھی، روزہ رکھو اور کھاؤ پیو بھی، ہر مہینے تین دن روزے رکھو، یہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے اندر اس سے زیادہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2427]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین عمل میں انتہائی خفیف اور اجر میں بہت عظیم ہے، مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طبیعت زیادہ کی حریص تھی، اس لیے زیادہ کی اجازت طلب کرتے رہے، مگر جب بڑھاپے میں کمزور ہو گئے تو کہا کرتے تھے: کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے تین دن قبول کر لیے ہوتے، وہ مجھے میرے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھے۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1159)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2427