سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
76. بَابُ : صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ فِي ذَلِكَ لِخَبَرِ عَبْدِ
باب: ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2393
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجْرَتِي , فَقَالَ:" أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ" قَالَ: بَلَى، قَالَ:" فَلَا تَفْعَلَنَّ نَمْ وَقُمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ، فَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجَتِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِصَدِيقِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّهُ عَسَى أَنْ يَطُولَ بِكَ عُمُرٌ، وَإِنَّهُ حَسْبُكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثًا، فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا" , قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ , قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ جُمُعَةٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ" , قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ قَالَ:" صُمْ صَوْمَ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام" , قُلْتُ: وَمَا كَانَ صَوْمُ دَاوُدَ؟ قَالَ:" نِصْفُ الدَّهْرِ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں داخل ہوئے اور فرمایا: کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی ہے کہ تم رات میں قیام کرتے ہو اور دن میں روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہاں ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: تم ایسا ہرگز نہ کرو، سوؤ بھی اور قیام بھی کرو، روزہ سے بھی رہو اور کھاؤ پیو بھی، کیونکہ تمہاری آنکھ کا تم پر حق ہے، اور تمہارے بدن کا تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے، تمہارے مہمان کا تم پر حق ہے، اور تمہارے دوست کا تم پر حق ہے، توقع ہے کہ تمہاری عمر لمبی ہو، تمہارے لیے بس اتنا کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کرو، یہی صیام الدھر ہو گا کیونکہ نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے، میں نے عرض کیا: میں اپنے اندر طاقت پاتا ہوں، تو میں نے سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی، آپ نے فرمایا: ہر ہفتے تین دن روزہ رکھا کرو، میں نے عرض کیا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، تو میں نے سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی، آپ نے فرمایا: تم اللہ کے نبی داود علیہ السلام کے روزے رکھو، میں نے کہا: داود علیہ السلام کا روزہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک دن روزہ ایک دن افطار۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 54 (1974) مختصراً، 55 (1975)، الأدب 84 (6134)، النکاح 89 (5199)، صحیح مسلم/الصوم 35 (1159)، (تحفة الأشراف: 8960)، مسند احمد 2/188، 198، 200 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 1976  
´ہمیشہ روزہ رکھنا`
«. . . فَصُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا، فَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ . . .»
. . . فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بے روزہ کے رہ کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1976]

فقہ الحدیث
منکرین اعتراض کرتے ہیں:
امام بخاری صائم الدہر رہا کرتے تھے، جیسا کہ کتاب طبقات کبریٰ امام عبدالوہاب شعرانی، مطبوعہ مصر [50/1] امام بخاری کے حال میں لکھا ہے:
«محمد بن إسماعيل البخاري، كان صائم الدھر، وجاع حتي انتھي أكله كل يوم إلي تمرة أو لوزة.»
محمد بن اسماعیل بخاری صائم الدہر تھے اور اتنی فاقہ کشی کی کہ ان کی روزانہ کی غذا ایک خرما یا ایک بادام تک پہنچ گئی۔
{أقول:} اے جناب! آپ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کا مطلب نہیں سمجھا، وہ ہرگز حدیث کے خلاف عامل نہیں ہوئے، بلکہ حدیث میں جیسا مہینے میں تین دن روزہ رکھنے کو کہا گیا ہے، ویسا ہی امام بخاری رحمہ اللہ کرتے اور پھر بقیہ ایام نہایت کم خوراکی سے بسر کرتے، امام بخاری رحمہ اللہ کے صائم الدھر ہونے کہ یہ معنی ہیں، ورنہ جس معنی میں آپ نے سمجھا ہے، اس اعتبار سے شعرانی کی عبارت میں تناقض ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ دن کو کھائیں بھی (ایک کھجور یا بادام ہی سہی) اور پھر صائم بھی ہوں؟ «ھل ھذا إلا تناقض!»

مطلب یہ ہے کہ ان کی اس قدر کم خوراکی بھی صیام کے مثل ہے، یہ نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھاتے ہی نہ تھے،
اسی طبقات کبریٰ للشعرانی میں ہے:
ابوالحسن یوسف بن ابی ذر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے چالیس سال تک نانخورش نہیں کھایا، صرف خشک روٹیوں پر گزارا کرتے رہے، جب علیل ہوئے تو بہ تجویز شیوخ روٹیوں کے ساتھ شکر کھانی منظور کی۔ ۱؎

جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کچھ کھایا بھی کرتے تھے، لیکن چونکہ یہ کھانا اور نہ کھانا دونوں ایک برابر تھا، لہٰذا ان کو صائم الدہر کہا گیا، صائم الدہر کا وہ مطلب نہیں ہے، جو آپ نے سمجھا ہے کہ ہمیشہ روزہ ہی رکھا کرتے تھے، مطلقاً کچھ کھایا ہی نہیں، بلکہ کچھ ضرور کھاتے، پس یہ عمل ہرگز حدیث کے خلاف نہیں ہوا۔ ۲؎

امام نے تو بقدم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثل دنیا گزاری۔
------------------
۱؎ [ھدي الساري:ص،481]، [تغليق التعليق 398/5]، [الطبقات الكبري:ص:92]
۲؎ علاوہ ازیں شعرانی نے طبقات میں امام بخاری کے متعلق مذکورہ عمل کی کوئی سند بیان نہیں کی، کیونکہ مذکورہ عمل کے پایہ ثبوت کو پہنچنے کے بعد ہی کسی توجیہ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ «إذ ليس فيلس!»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 132   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2393  
´ایک دن روزہ رکھنے اور ایک دن افطار کرنے کا بیان اور اس سلسلہ میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں داخل ہوئے اور فرمایا: کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی ہے کہ تم رات میں قیام کرتے ہو اور دن میں روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہاں ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: تم ایسا ہرگز نہ کرو، سوؤ بھی اور قیام بھی کرو، روزہ سے بھی رہو اور کھاؤ پیو بھی، کیونکہ تمہاری آن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2393]
اردو حاشہ:
(1) تجھ پر حق ہے۔ لہٰذا ہر حق والے کو اس کا حق دے۔ آنکھ کا حق نیند، جسم کا حق آرام و خوراک، بیوی کا حق اس کے ساتھ شب بسری، مہمان کا حق مہمان نوازی اور اس کے ساتھ مل کر کھانا، دوست کا حق اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا وغیرہ ہے۔
(2) تیری عمر لمبی ہوگی۔ اور بڑی عمر میں زیادہ عبادت کو قائم نہ رکھ سکے گا، لہٰذا اتنی عبادت شروع کر جسے قائم رکھ سکے۔ مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جوانی اور عبادت کے جوش میں سمجھ نہ سکے اور آخر عمرمیں تنگ ہوئے جسے وہ سختی ڈالنے سے تعبیر فرما رہے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2393   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1706  
´ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس کا روزہ ہی نہیں ہوا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1706]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہو اکہ ہمیشہ روزے رکھنے والے کو با لکل ثواب نہیں ملتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1706   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2427  
´سدا نفلی روزے سے رہنا۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تو آپ نے فرمایا: کیا مجھ سے یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ تم کہتے ہو: میں ضرور رات میں قیام کروں گا اور دن میں روزہ رکھوں گا؟ کہا: میرا خیال ہے اس پر انہوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول! میں نے یہ بات کہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیام اللیل کرو اور سوؤ بھی، روزہ رکھو اور کھاؤ پیو بھی، ہر مہینے تین دن روزے رکھو، یہ ہمیشہ روزے رکھنے کے برابر ہے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے اندر اس سے زیادہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2427]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تلقین عمل میں انتہائی خفیف اور اجر میں بہت عظیم ہے، مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طبیعت زیادہ کی حریص تھی، اس لیے زیادہ کی اجازت طلب کرتے رہے، مگر جب بڑھاپے میں کمزور ہو گئے تو کہا کرتے تھے: کاش میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے تین دن قبول کر لیے ہوتے، وہ مجھے میرے اہل اور مال سے زیادہ محبوب تھے۔
(صحيح مسلم‘ الصيام‘ حديث:1159)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2427