سنن نسائي
كتاب الصيام -- کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
84. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ فِي الْخَبَرِ فِي صِيَامِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ
باب: ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے والی حدیث کے سلسلہ میں موسیٰ بن طلحہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2425
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَامٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَصُومَ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ الْبِيضَ: ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ".
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر مہینے کے ایام بیض یعنی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں کو روزے رکھیں۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2425  
´ہر ماہ تین دن روزہ رکھنے والی حدیث کے سلسلہ میں موسیٰ بن طلحہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ہر مہینے کے ایام بیض یعنی تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں کو روزے رکھیں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2425]
اردو حاشہ:
ان دنوں کی راتوں کے روشن ہونے کی وجہ سے ان دنوں کو بھی مجازاً روشن کہہ دیا ورنہ دن تو سارے ہی روشن ہوتے ہیں۔ یا ایام بیض اصل میں ایام اللیالی البیض ہے، یعنی روشن راتوں والے تین دن۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2425   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1708  
´ماہانہ تین دن روزے رکھنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہر مہینہ تین دن روزہ رکھا تو گویا اس نے ہمیشہ روزہ رکھا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کی تصدیق نازل فرمائی: «من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها» (جو کوئی ایک نیکی کرے اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی) تو ایک روزے کے دس روزے ہوئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1708]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ روایت کو ہمارے فا ضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ سنن نسا ئی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی حدیث اس کی شا ہد ہے لہٰذا روایت قا بل حجت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1708