صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
67. بَابُ مَا يَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ فِي السَّمْنِ وَالْمَاءِ:
باب: ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گر جائیں۔
وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: لَا بَأْسَ بِالْمَاءِ مَا لَمْ يُغَيِّرْهُ طَعْمٌ أَوْ رِيحٌ أَوْ لَوْنٌ، وَقَالَ حَمَّادٌ: لَا بَأْسَ بِرِيشِ الْمَيْتَةِ، وَقَالَ الزُّهْرِيُّ فِي عِظَامِ الْمَوْتَى نَحْوَ الْفِيلِ وَغَيْرِهِ: أَدْرَكْتُ نَاسًا مِنْ سَلَفِ الْعُلَمَاءِ يَمْتَشِطُونَ بِهَا وَيَدَّهِنُونَ فِيهَا لَا يَرَوْنَ بِهِ بَأْسًا وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ، وَإِبْرَاهِيمُ: وَلَا بَأْسَ بِتِجَارَةِ الْعَاجِ.
‏‏‏‏ زہری نے کہا کہ جب تک پانی کی بو، ذائقہ اور رنگ نہ بدلے، اس میں کچھ حرج نہیں اور حماد کہتے ہیں کہ (پانی میں) مردار پرندوں کے پر (پڑ جانے) سے کچھ حرج نہیں ہوتا۔ مردوں کی جیسے ہاتھی وغیرہ کی ہڈیاں اس کے بارے میں زہری کہتے ہیں کہ میں نے پہلے لوگوں کو علماء سلف میں سے ان کی کنگھیاں کرتے اور ان (کے برتنوں) میں تیل رکھتے ہوئے دیکھا ہے، وہ اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ابن سیرین اور ابراہیم کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کی تجارت میں کچھ حرج نہیں۔