سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
33. بَابُ : النَّهْىِ عَنْ أَنْ تَنْتَقِبَ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ
باب: محرم عورت کے نقاب پہننے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2674
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنَ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ، وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنَ الثِّيَابِ مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ، وَلَا الْوَرْسُ، وَلَا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ، وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کس طرح کے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ عمامہ، نہ ٹوپیاں سوائے اس کے کہ کسی کے پاس جوتے موجود نہ ہوں تو وہ ایسے موزے پہنے جو ٹخنوں سے نیچے ہوں، اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگے ہوں اور محرم عورت نہ نقاب پہنے اور نہ ہی دستانے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 13 (1838)، سنن ابی داود/المناسک 32 (1825)، سنن الترمذی/الحج 18 (833)، (تحفة الأشراف: 8275)، مسند احمد (2/119) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2674  
´محرم عورت کے نقاب پہننے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کس طرح کے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ عمامہ، نہ ٹوپیاں سوائے اس کے کہ کسی کے پاس جوتے موجود نہ ہوں تو وہ ایسے موزے پہنے جو ٹخنوں سے نیچے ہوں، اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگے ہوں اور محرم عورت نہ نقاب پہنے اور نہ ہی دستانے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2674]
اردو حاشہ:
(1) نقاب نہ باندھے اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنا چہرہ ننگا رکھے، بلکہ یہ ایک مخصوص قسم کا نقاب تھا جو اس زمانے میں رائج تھا، اس سے فوری طور پر چہرے کا پردہ کرنا مشکل ہوتا تھا، اس لیے مخصوص نقاب سے روک دیا گیا تاکہ مردوں کے سامنے آتے ہی فوراً پردہ کرنا آسان رہے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ مرد سامنے آتے تو ہم فوراً چہرہ ڈھانپ لیتیں۔ اب اس نقاب کا رواج بھی ختم ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں اب مردوں کا ہجوم ہر وقت اور ہر جگہ رہتا ہے، اس لیے اب حجاب کا اہتمام ہر وقت ہی کرنا چاہیے، سوائے ان جگہوں کے جہاں مرد نہ ہوں۔ بعض لوگ عورت کے لیے چہرہ ننگا رکھنے پر سنن دارقطنی کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ عورت کا احرام اس کے چہرے میں اور مرد کا احرام اس کے سر میں ہے۔ اسے سنن دارقطنی میں مرفوعاً بیان کیا گیا ہے لیکن اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں ہے۔ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، یعنی موقوف روایت ہے۔ دیکھیے: (سنن الدارقطني: 2/ 554۔ بتحقیق الشیخ عادل والشیخ علي محمد، دارالمعرفة، بیروت) اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں ہے۔ بشرطِ صحت اس موقوف روایت کا بھی وہی مفہوم لیا جائے گا جس کی وضاحت ہم نے کی ہے۔
(2) دستانے نہ پہنے مقصد یہ ہے کہ وہ ہاتھ ننگے رکھے تاکہ دوران حج و عمرہ میں کوئی تنگی نہ ہو۔ معلوم ہوا اس دور میں خواتین پردے کے لیے دستانے بھی استعمال کرتی تھیں۔ مشہور تو یہی ہے کہ دستانے ہاتھوں کو سردی، گرمی یا پانی سے بچانے کے لیے ہوتے ہیں مگر بعض اہل لغت نے اس سے زیور بھی مراد لیا ہے جس کے ساتھ ہاتھ چھپ جاتے ہیں۔ خیر! احرام میں ہاتھ ننگے رہنے چاہئیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2674   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 596  
´احرام اور اس کے متعلقہ امور کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا احرام باندھنے والا کیا لباس پہنے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قمیص، پگڑی، شلوار و پاجامہ، کٹ ٹوپ اور موزے نہ پہنے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس جوتے نہیں تو وہ موزے پہن لے اور اسے چاہیئے کہ دونوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کوئی کپڑا نہ پہنے جسے زعفران اور کیسو (ایک زرد رنگ کی خوشبودار بوٹی) لگا ہوا ہو۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/حدیث: 596]
596 لغوی تشریح:
«الْعَمَائِم» یہ عمامہ کی جمع ہے جو سر پر لپیٹا جاتا ہے۔
«السَّرَاوِيل» شلوار۔
«الْبَرَانِسَ» یہ «برنس» کی جمع ہے۔ برنس کی با اور نون پر ضمہ اور دونوں کے درمیان را ساکن ہے۔ یہ ہر اس کپڑے کو کہتے ہیں جس کا کچھ حصہ ٹوپی وغیرہ پر مشتمل ہو، خواہ کوئی زرہ یا جبہ یا اوورکوٹ وغیرہ ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ لمبی ٹوپی ہے جو ابتدائے اسلام میں حج کرنے والے پہنتے تھے۔
«الْخِفِافَ» خا کے نیچے زیر ہے۔ «خف» کی جمع ہے، یعنی موزے۔
«فَلْيَقْطَعْهُمَا أسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ» انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے تاکہ وہ جوتے کہ حکم میں ہو جائیں۔ اور اس سے مقصود یہ ہے کہ احرام کے دوران میں ٹخنے ننگے رہیں۔ اور کعب سے مراد وہ ابھری ہوئی دو ہڈیاں ہیں جو پاؤں اور پنڈلی کے جوڑ کے قریب دائیں بائیں ہوتی ہیں۔
«اَلْوَرْس» واؤ پر زبر اور را ساکن ہے۔ زرد رنگ کی خوشبو دار گھاس جس میں کپڑے رنگے جاتے ہیں۔ زعفران اور ورس کے رنگ سے رنگے ہوئے لباس کی ممانعت اس لیے ہے کہ ان میں خوشبو ہوتی ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ احرام کے وقت قمیص، پاجامہ، شلوار، ٹوپی، برانڈی اور موزے پہننا درست نہیں۔
➋ جوتے اگر میسر نہ ہوں، صرف موزے ہوں تو اس حدیث کی رو سے انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لینا چاہیے، تاہم فقہا کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ موزے کو پہننے کو جائز قرار دیتے ہیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں موزوں کو کاٹنے کا حکم منسوخ ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ابتدائے احرام کے وقت تھی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں کاٹنے کا حکم نہیں اور یہ حکم آپ نے عرفات میں بیان فرمایا تھا، اس لیے کاٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ اور یہی رائے راجح اور درست معلوم ہوتی ہے، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ اور سعودی علمائے کرام کی بھی یہی رائے ہے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتاويٰ اسلاميه، اردو 331/2]
امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر شوافع چادر نہ ہونے کی صورت میں مطلقاً شلوار پہننے کے قائل ہیں اور ان کا استدلال بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ اس کے قطعاً قائل نہیں۔ البتہ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ اور بعض شوافع کا کہنا ہے کہ اگر چادر میسر نہ ہو شلوار کو پھاڑ کر چادر نما بنا کر پہننا جائز ہے، مگر ان کا یہ قول محض قیاس پر مبنی ہے جس پر کوئی نص نہیں، اس لیے شلوار کے بارے میں صحیح موقف امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ ہی کا معلوم ہوتا ہے کہ چادر نہ ہونے کی بنا پر احرام میں شلوار پہننا جائز ہے۔
➍ زعفران اور ورس سے رنگا ہوا لباس بھی احرام میں جائز نہیں۔ یہ ممانعت رنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ خوشبو کی وجہ سے ہے کیونکہ احرام کے بعد خوشبو لگانا بالاتفاق حرام ہے، البتہ اگر اسے دھو کر اس کی خوشبو زائل کر دی جائے تب جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 596   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 833  
´محرم کے لیے جن چیزوں کا پہننا جائز نہیں ان کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کھڑ ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کون کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ قمیص پہنو، نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ موزے، الا یہ کہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ خف (چمڑے کے موزے) پہنے اور اسے کاٹ کر ٹخنے سے نیچے کر لے ۱؎ اور نہ ایسا کوئی کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہو ۲؎، اور محرم عورت نقاب نہ لگائے اور نہ دستانے پہنے ۳؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 833]
اردو حاشہ:
1؎:
جمہور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے خف (چمڑے کے موزوں) کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیر کاٹے خف (موزہ) پہننے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ((مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ،
فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ)
)
جو بخاری میں آئی ہے مطلق ہے،
لیکن جمہور نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا،
حنابلہ نے اس روایت کے کئی جوابات دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے پہلے مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت عرفات کی ہے،
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہا کی روایت حجت کے اعتبار سے ابن عباس کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو أصح الاسانید ہے۔

2؎:
ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے،
اس بات پر اجماع ہے کہ حالتِ احرام میں مرد کے لیے حدیث میں مذکور یہ کپڑے پہننے جائز نہیں ہیں،
قمیص اور سراویل (پاجامے) میں تمام سلے ہوے کپڑے داخل ہیں،
اسی طرح عمامہ اور خفین سے ہر وہ چیز مراد ہے جو سر اور قدم کو ڈھانپ لے،
البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں،
عورت کے لیے حالت احرام میں وہ تمام کپڑے پہننے جائز ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر ہے البتہ وہ ورس اور زعفران میں رنگے ہوئے کپڑ ے نہ پہنے۔

3؎:
محرم عورت کے لیے نقاب پہننا منع ہے،
مگر اس حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا،
برصغیر ہند و پاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرتے وقت چہروں پر لٹکا لیا کرتی تھیں اس لیے اس نقاب کو عورتیں بوقت ضرورت چہرے پر لٹکا سکتی ہیں اور چونکہ اس وقت حج میں ہروقت اجنبی مردوں کا سامنا پڑتا ہے اس لیے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پرلٹکائے رکھ سکتی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 833