سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
46. بَابُ : الْكَرَاهِيَةِ فِي الثِّيَابِ الْمُصْبَغَةِ لِلْمُحْرِمِ
باب: محرم کے لیے رنگین کپڑے پہننے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2713
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: أَتَيْنَا جَابِرًا فَسَأَلْنَاهُ عَنْ حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثَنَا , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً فَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُحْلِلْ، وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً" , وَقَدِمَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ الْيَمَنِ بِهَدْيٍ وَسَاقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ هَدْيًا وَإِذَا فَاطِمَةُ قَدْ لَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ مُحَرِّشًا أَسْتَفْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ فَاطِمَةَ لَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ وَقَالَتْ أَمَرَنِي بِهِ أَبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" صَدَقَتْ، صَدَقَتْ، صَدَقَتْ، أَنَا أَمَرْتُهَا".
محمد الباقر کہتے ہیں کہ ہم جابر (جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، اور ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے پہلے معلوم ہو گیا ہوتا جو اب معلوم ہوا تو میں ہدی (کا جانور) لے کر نہ آتا اور اسے عمرہ میں تبدیل کر دیتا (اور طواف و سعی کر کے احرام کھول دیتا) تو جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اسے عمرہ قرار دے لے (اسی موقع پر) علی رضی اللہ عنہ یمن سے ہدی (کے اونٹ) لے کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے لے کر گئے۔ اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب رنگین کپڑے پہن لیے اور سرمہ لگا لیا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تو غصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھنے گیا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! فاطمہ نے تو رنگین کپڑے پہن رکھے ہیں اور سرمہ لگا رکھا ہے اور کہتی ہیں: میرے ابا جان صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا حکم دیا ہے؟، آپ نے فرمایا: اس نے سچ کہا، اس نے، سچ کہا، میں نے ہی اسے حکم دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 19 (1218)، سنن ابی داود/الحج 57 (1905)، سنن ابن ماجہ/الحج 84 (3074)، (تحفة الأشراف: 2593)، مسند احمد (3/320)، ویأتی عند المؤلف فی51، 52، 73، 331، 333، 340، 373، 388، 394، 397، سنن الدارمی/المناسک 11 (1846) (بأرقام2741، 2744) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2713  
´محرم کے لیے رنگین کپڑے پہننے کی کراہت کا بیان۔`
محمد الباقر کہتے ہیں کہ ہم جابر (جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، اور ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے پہلے معلوم ہو گیا ہوتا جو اب معلوم ہوا تو میں ہدی (کا جانور) لے کر نہ آتا اور اسے عمرہ میں تبدیل کر دیتا (اور طواف و سعی کر کے احرام کھول دیتا) تو جس کے پاس ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اسے عمرہ قرار دے لے (اسی موق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2713]
اردو حاشہ:
(1) اگر مجھے پہلے پتا چل جاتا۔ روایت کا ابتدائی حصہ حذف ہے۔ دراصل حجۃ الوداع میں رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حج ہی کا احرام باندھا تھا، مگر پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آگیا کہ حج کے دنوں میں عمرہ بھی کیا جائے۔ دور جاہلیت میں لوگ حج کے دنوں میں عمرہ کرنے کو بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ آپ نے اعلان عام فرمایا کہ جن لوگوں کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حج کے لیے بعد میں نیا احرام باندھیں۔ قربانی کے جانور ساتھ لانے والے چونکہ قربانی ذبح ہونے سے پہلے حلال نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ عمرہ تو کریں مگر حج کا احرام قائم رکھیں اور قربانی ذبح ہونے کے بعد حلال ہوں۔ رسول اللہﷺ کے ساتھ بھی قربانی کے جانور تھے، لہٰذا آپ عمرہ کر کے حلال نہ ہوئے۔ دوسرے لوگوں کے لیے جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں، عمرے کے بعد حلال ہونا بڑا شاق تھا کیونکہ ان کی اصل نیت حج کی تھی۔ حج کے دن بھی قریب تھے۔ صرف تین دن کا فاصلہ تھا، لہٰذا انھیں درمیان میں حلال ہونا پسند نہ تھا۔ اسی لیے آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
(2) جو بعد میں پتا چلا۔ یعنی عمرے کا حکم۔
(3) حضرت فاطمہؓ کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں تھے، لہٰذا وہ عمرہ کر کے حلال ہوگئیں۔ انھوں نے رنگ دار کپڑے پہنے اور سرمہ لگایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ چونکہ قربانی کے جانور تھے، لہٰذا وہ حلال نہ ہوئے، اس لیے انھیں اشکال پیدا ہوا۔
(4) امام نسائی رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ اگر احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے درست ہوتے یا سرمہ لگانا جائز ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اعتراض کیوں کرتے؟ معلوم ہوا احرام کی حالت میں رنگ دار کپڑے یا سرمہ جائز نہیں، البتہ رنگ دار کپڑوں سے مراد وہ ہیں جنھیں بعد میں رنگا گیا ہو یا زعفران وغیرہ سے رنگے ہوں، ورنہ پہلے سے رنگ والے کپڑے عورت احرام میں استعمال کر سکتی ہے۔ ان کپڑوں کی کراہت کی وجہ زینت یا خوشبو ہے۔
(5) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی دینی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کلمہ لَوْ کہنا جائز ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں جو ممانعت وارد ہے وہ دنیاوی امور کے متعلق ہے۔
(6) اپنے اہل خانہ اور بال بچوں کی خوب نگرانی کرنی چاہیے اور خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں وہ کسی خلاف شرع کام کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔
(7) اگر ممکن ہو تو قربانی کے جانور دور دراز علاقے سے لائے جا سکتے ہیں۔ یہ مشروع ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2713   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1074  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوئے۔
اور یہاں سے یوم الترویہ (8 ذوالحجہ)
کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں یہ ارشاد ہے کہ چاردن ٹھرنے کی صورت میں بھی دوگانہ ادا کیاجا سکتا ہے۔
الغرض قصر نماز کےلئے دنوں کے تعین میں یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہے۔
واللہ أعلم تاہم دونوں ہی موقف صحیح ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1789  
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
1789. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔
➋ اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1789