سنن نسائي
كتاب مناسك الحج -- کتاب: حج کے احکام و مناسک
50. بَابُ : التَّمَتُّعِ
باب: حج تمتع کا بیان۔
حدیث نمبر: 2739
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ قَيْسٍ وَهُوَ ابْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ:" بِمَا أَهْلَلْتَ؟" قُلْتُ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" فَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ" , ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي، وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ فِي إِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِمَارَةِ عُمَرَ، وَإِنِّي لَقَائِمٌ بِالْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ قُلْتُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ بِشَيْءٍ فَلْيَتَّئِدْ، فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَأْتَمُّوا بِهِ، فَلَمَّا قَدِمَ قُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هَذَا الَّذِي أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ قَالَ:" إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196 , وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بطحاء میں تھے۔ آپ نے فرمایا: تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر تلبیہ پکارا ہے، پوچھا: کیا تم کوئی ہدی لے کر آئے ہو، میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرو پھر احرام کھول کر حلال ہو جاؤ، تو میں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر میں اپنے خاندان کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر دھویا۔ چنانچہ میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو اسی کا فتویٰ دیتا رہا۔ (ایک بار ایسا ہوا کہ) میں حج کے موسم میں کھڑا تھا کہ یکایک ایک شخص میرے پاس آ کر کہنے لگا: آپ اس چیز کو نہیں جانتے جو امیر المؤمنین نے حج کے سلسلے میں نیا حکم دیا ہے؟ تو میں نے کہا: لوگو! میں نے جس کسی کو بھی کوئی فتویٰ دیا ہو وہ اس پر عمل کرنے میں ذرا توقف کرے، کیونکہ امیر المؤمنین تمہارے پاس آنے والے ہیں، تو وہ جو فرمائیں اس کی پیروی کرو۔ تو جب وہ آئے تو میں نے کہا: امیر المؤمنین! یہ کیا ہے جو حج کے سلسلے میں آپ نے نئی بدعت نکالی ہے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم کتاب اللہ پر عمل کریں تو اللہ عزوجل نے فرمایا ہے: «وأتموا الحج والعمرة لله» اور اگر ہم اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کریں، تو آپ حلال نہیں ہوئے جب تک کہ آپ نے ہدی کی قربانی نہیں کر لی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 32 (1559)، 125 (1724)، العمرة 11 (1795)، المغازی 60 (4346) مختصراً، 77 (4397) مختصراً، صحیح مسلم/الحج 22 (1221)، (تحفة الأشراف: 9008)، مسند احمد (1/39، 4/393، 395، 397، 410، سنن الدارمی/المناسک 18 (1856)، ویأتی عند المؤلف فی باب 52 (برقم2743) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2739  
´حج تمتع کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بطحاء میں تھے۔ آپ نے فرمایا: تم نے کس چیز کا تلبیہ پکارا ہے؟ میں نے عرض کیا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر تلبیہ پکارا ہے، پوچھا: کیا تم کوئی ہدی لے کر آئے ہو، میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: خانہ کعبہ کا طواف کرو اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرو پھر احرام کھول کر حلال ہو جاؤ، تو میں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2739]
اردو حاشہ:
(1) نبیﷺ کے احرام کی طرح یعنی میں نے احرام باندھتے وقت کہا تھا کہ میں احرام باندھتا ہوں نبیﷺ کے احرام کی طرح۔ ورنہ انھیں اس وقت پتا نہ تھا کہ نبیﷺ نے کیا احرام باندھا ہے۔
(2) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو خود نبی اکرمﷺ نے یمن بھیجا تھا کیونکہ یہ بھی یمنی تھے، پھر یہ حجۃ الوداع کی اطلاع پر یمن سے مکہ پہنچے۔
(3) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید بھی اتمام کا حکم دیتا ہے۔ ظاہر ہے حج کی نیت رکھنے والے کا عمرہ کر کے حلال ہو جانا حج کے اتمام کے خلاف ہے کیونکہ ابھی حج تو ہوا ہی نہیں، وہ حلال بھی ہوگیا۔ ہاں جو آدمی جائے ہی عمرے کی نیت سے، وہ عمرے کا احرام باندھے اور عمرہ کر کے حلال ہو مگر حج کی نیت والا عمرے کا احرام کیوں باندھے؟ اور رسول اللہﷺ نے بھی حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ باوجود عمرہ داخل ہونے کے پھر بھی حلال حج کی تکمیل کے بعد ہی ہوئے تھے۔ باقی رہا آپ کا صحابہ کو یہ حکم دینا کہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل کر عمرہ کر کے حلال ہو جاؤ، یہ مخصوص حکم تھا جو مخصوص حالت میں وحی کی بنا پر ہنگامی طور پر جاری کیا گیا۔ یہ ہمیشہ کے لیے ہے، لہٰذا جو حج کرنا چاہتا ہے وہ حج ہی کا احرام باندھے یا پھر حج اور عمرے کا اکٹھا احرام باندھے اور حج کی تکمیل کے بعد ہی احرام ختم کرے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس اجتہاد میں کوئی شک نہیں لیکن صاحب قرآن کا عمل اور تمتع کے لیے آپ کا حکم یقینا مقدم ہے کیونکہ آپ ہی شارع ہیں، نیز یہ کوئی وقتی حکم نہ تھا جیسا کہ سیدنا عمر وغیرہ نے سمجھا بلکہ یہ استحباب ہمیشہ کے لیے ہے جیسا کہ ایک سائل کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ عمرہ حج میں تا قیامت داخل ہوگیا۔ اس سے تخصیص کا موقف کمزور ٹھہرتا ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2739